ہجرتِ مدینہ کےچھٹےسالرسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب دیکھا کہ آپ صحابۂ کرامعلیہمُ الرِّضوان کے ساتھ امن و عافِیَّت سے مکّۂ مکرّمہ میں داخل ہوئے اور عمرہ ادا فرمایا، بعض نے سَر منڈائے اور کچھ نے بال کتروائے،بیتُ اللہ میں داخل ہوئے اور اُس کی کنجی(یعنی چابی) لی نیز(میدانِ) عَرَفات میں قیام فرمایا۔(سیرت حلبیہ،ج3،ص13)
نبی کا خواب وحی ہوتا ہے،لہٰذا ذوالقعدۃ 6ہجری کو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے چودہ سوصحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے ساتھ عمرہ کی نیّت سے مکّۂ مکرّمہ کو روانہ ہوئے،مقامِ حدیبیہ پرٹھہرنا پڑا،کفّار نے مکّۂ مکرّمہ میں داخل نہ ہونے دیا، وہیں یہ معاہدہ طے پایا جو صُلْحِ حدیبیہ کے نام سے مشہورہوا،اس کی کچھ تفصیل یہ ہے۔صلح حدیبیہ کی شرائط:کفّار کی طرف سے بالترتیب بُدَیْل بن وَرْقَاء خُزَاعِی، عُرْوَہ بن مسعودثَقَفِی اورحُلَیْس بن علقمہ اور مِکْرَزمذاکرات کے لئے آئے اور آخر میں خطیبِ قریش سہیل بن عَمَرو قریشی نے حاضر ہوکر معاہدہ کیاجس میں یہ شرائط طےپائیں:٭فریقین کے درمیان 10 سال تک جنگ نہیں ہوگی۔ ٭اس سال مسلمان عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں، آئندہ سال عمرہ کے لئے آئیں اور تین دن مکّۂ مکرّمہ میں قیام کریں۔ ٭مسلمان اپنے ساتھ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ لائیں اور وہ بھی نیام میں رہے۔ ٭مکّۂ مکرّمہ سے جو شخص مدینۂ منورہ چلا جائے تو اُسے واپس کردیا جائے لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ شریف سے مکّہ مکرّمہ آگیا تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ ٭قبائلِ عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کرلیں۔(سبل الہدی والرشاد،ج5،ص52۔الکامل فی التاریخ،ج2،ص87-89ملخصاً) صلحِ حدیبیہ کے دوررَس نتائج:معاہد ےکی شرائط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں مگر اپنے اندر دُور رَس نتائج رکھتی تھیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ظاہر کی نظر میں اسلام کے لئے دَبتی ہوئی بات تھی اور حقیقت میں ایک بڑی نمایاں فتح تھی جسے اللہ تعالیٰ نے (اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱)) فرمایا۔(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) پھرسورۂ فتح کی اس آیت نمبر 25کی تفسیر کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: یہ آیت مسلمانوں کی تسکین کے لئے نازل فرمائی کہ اِس سال تمہیں داخلِ مکّہ نہ ہونے دینے میں کئی حکمتیں تھیں: مکّۂ معظّمہ میں بہت سے مرد وعورت خفیہ طور پر مسلمان ہیں،کفار پر قہرڈھاتے ہوئے لا علمی میں تم انہیں بھی روند دیتے نیز وہاں وہ لوگ بھی ہیں جوابھی کافر ہیں مگر عنقریب اللہ عَزَّ وَجَلَّ انہیں اپنی رَحْمت میں لے گا،اسلام دے گا، ان کا قتل منظور نہیں ،ان وجوہات سے کفّارِ مکّہ پر سے قتل وقہر موقوف رکھا گیا۔(فتاوی رضویہ، ج 30،ص381ماخوذاً) حدیبیہ سے بڑی کوئی فتح نہیں:حضرتِ سیّدنا صدیقِ اکبر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہفرمایا کرتے: اسلام میں حدیبیہ سے بڑی کوئی فتح نہیں مگرلوگوں کی عقلیں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے معاملے تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ (سیرت حلبیہ ،ج3،ص41)مسلمان ہونے والوں کی کثرت: حضرت امام زُہْری علیہ رحمۃ اللہ القَوینے فرمایا:جب جنگ رُک گئی اور امن ہوگیا تو لوگ ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے اور اسلام کی دعوت عام ہونے لگی، جس شخص میں ذرا سی بھی عقل تھی وہ داخلِ اسلام ہوگیااورصلحِ حدیبیہ سے فتحِ مکّہ تک کے اِن دوسالوں میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے جتنے اِس سے پہلے تمام مدّت میں ہوئے تھے بلکہ اُس سے بھی زیادہ۔(تاریخ طبری،ج2،ص224 ملخصاً) خیبر،فِدَک اور تَبُوک میں اسلام کی بہاریں:قریش کی جانب سے اطمینان ہونے کے بعد شمالی اوروسطِ عرب کی مخالف طاقتوں کو زیر کرنے کاموقع ملا،صلح کے صرف تین مہینوں بعد یہود کے مَرَاکِز خیبر، فِدَک اور تبوک وغیرہ پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا اور وسطِ عرب میں پھیلےقریش کے حلیف قبائل ایک ایک کرکے حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔(عامہ کتبِ سیرت) صلح حدیبیہ سے حاصل ہونے والے مدنی پھول: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر ہم صلحِ حدیبیہ میں غوروفکر کریں تو اس سے کثیر مدنی پھول مل سکتے ہیں،جن میں سے چند یہ ہیں: (1)حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بعض اوقات مفاہمت وسمجھوتا کرلینے ہی میں دُور اَنْدَیشی اور عافیَّت ہوتی ہے۔ (2)کثیر اور بڑے فوائدکے لئے کوئی چھوٹافائدہ ترک کردینا قرینِ حکمت اور عقلمندی ہے۔(3)فتنہ وفساد اور خون ریزی کا اندیشہ ہو توکبھی حق پر ہوتے ہوئے بھی اپنا حق چھوڑ دینا چاہئے۔ (4)ذاتی، خاندانی یا معاشرتی جھگڑوں کے وقت بَسااوقات پیچھے ہٹ جانے سے امن کی بہاریں آجاتی ہیں۔ (5)اگر انتظار کرنے میں زیادہ فائدے کی توقع ہوتو جلد بازی نہیں کرنی چاہئے۔
Comments