صَدْرِ شریعت، بدرِ طریقت، مُحسنِ اَہلِ سنّت، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مُصنِّفِ بہارِ شریعت حضرتِ علّامہ مولانا الحاج مفتی محمد امجد علی اَعظمی رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی 1300 ھ مطابق 1882ء میں مشرقی یوپی(ہند)کے قصبے مدینۃُ العُلَماء گھوسی میں پیدا ہوئے۔(تذکرۂ صدر الشریعہ، ص5) حلیہ مبارک:صدرُالشریعہرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی پیشانی کُشادَہ، رنگ گندمی، گھنی داڑھی، بدن صحت مند اورقد درمیانہ تھا۔(حیات وخدمات صدرالشریعہ، ص12) ایک بھی روزہ نہ چھوڑا:ایک مرتبہ رمضان ُ المبارک کے مہینے میں ایسا وبائی بُخار پھیلا جس میں شدید پیاس لگتی تھی صدرُالشریعہ بھی ایک ہفتے تک اس بُخار میں رہے مگر آپ کا ایک بھی روزہ نہ چُھوٹا۔(صدرالشریعہ نمبر، ص56) نماز سے محبت: ایک مرتبہ آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہکو شدید بُخار تھا جس کی وجہ سے آپ پربار بار بے ہوشی طاری ہورہی تھی، جب ذَرا ہوش آیا تو آپ نے حافظِ مِلَّت حضرت علّامہ عبدُالعزیز مُبارک پوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے وقت دریافت فرمایا تو انہوں نے ظُہر کا وقت ختم ہوجانے کی اِطِّلاع دی جس پر صدرُالشریعہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،فرمانے لگے: آہ!میری نماز قضا ہوگئی۔ حافظِ مِلَّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عرض کی: حضور! شریعت کی رُو سے غَشِی کی حالت میں نماز قضا نہیں ہوتی، فرمایا:غم اس کا ہے کہ ایک بار حاضری سے محروم رہ گیا۔(صدر الشریعہ نمبر،ص13)سفرِحج کا ذوق و شوق: صدرُالشَّریعہ فرماتے ہیں:میں حج و زِیارت کے لئے شب و روز بیتاب رہتا جب حج کے لئے قافلہ نکلتا تو میں دل مَسُوس کر رہ جاتا،میرے پاس اتنا سرمایہ جمع نہیں ہوتا کہ میں حج و زیارت کرسکوں مگر کچھ نہ کچھ اس کےلئےپَسِ اَنداز(جمع) کرتا رہا۔ ابھی پوری رقم جمع نہ ہوپائی تھی کہ بیتابی برداشت کی منزلوں سے آگے بڑھ گئی اس زمانے میں حج کے سفر میں کم اَز کم تین مہینے ضرور صَرف ہوتے تھے عموماً چار مہینے لگ جاتے تھے، چار ماہ کے لئے بچوں کے نان و نَفَقَہ کے واسطے گھر قطعًا چھوڑنا پھر حج کے اَخْرَاجات کے لئے رقم ہونا بڑا مشکل نظر آرہا تھا لیکن بیتابی بہت زیادہ بڑھ گئی تو میں نے کچھ قرض لیا اور حج کے لئے گیا۔(صدرالشریعہ نمبر ،ص64) نعت شریف سننے کا انداز: صدرُالشَّریعہ دونوں ہاتھ باندھ کر،آنکھیں بند کرکےنہایت تَوَجُّہ کے ساتھ نعت شریف سُنا کرتے اوراس دوران آپ کی آنکھوں سےاشک جاری ہوجاتے۔ (صدرالشریعہ نمبر، ص62) دینی خدمات: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تمام عُمْر شجرِ اسلام کی آبیاری کےلئے کوشاں رہے۔ سیّدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں قراٰنِ پاک کا تَرجَمہ کرنے کی عرض کی اور خود سیّدی اعلیٰ حضرت سے سُن سُن کر اِملا فرمائی اور”تَرجَمۂ کنزُ الایمان“ کی صورت میں مسلمانوں کو ایمان کا خزانہ عطا فرمانے کا سبب بنے، اسی طرح ”بہارِ شریعت“ جیسی عظیمُ الشّان کتاب تصنیف فرما کر عالَمِ اسلام پر احسان فرمایا۔ اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّوَجَلَّ! اس عالی شان کتاب کو دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہنے عصرِ حاضر کے طباعتی مِعْیار کے مطابق شائِع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ دنیا بھر میں دینِ اسلام کی حمایت و نُصْرت اور اس کی تبلیغ کےلئے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے لائق فائق تَلامِذہ کی بھی کثیر تعداد تیار کی۔ اجازت و خلافت: اپنے استادِ محترم حضرت علّامہ وَصی احمد مُحَدِّث سُورتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مشورے پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے مرید ہوئے اور بارگاہِ رَضَوِیَّت سے چاروں سَلَاسِل کی اِجازت سے نوازے گئے۔ (حیات صدرالشریعہ ، ص29، سیرت صدر الشریعہ،ص245) آپ کو صدرُ الشّریعہ کا لقب اور قاضیٔ شرع کامَنْصَب بارگاہِ اعلیٰ حضرت سے مِلا۔(تذکرۂ صدر الشریعہ،ص20) وصال و مدفن:ذوالقعدۃالحرام 1367ھ کی دوسری شب 12 بج کر 26 مِنَٹ پر مطابِق6 ستمبر 1948ء کو آپ وفات پاگئے۔ مدینۃُ العُلَماء گھوسی( ضِلع اعظم گڑھ) میں آپ کا مزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔(تذکرۂ صدر الشریعہ،ص39 تا 41،ملخصاً)
مزید حالاتِ زندگی جاننے کے لئے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ”تذکرۂ صدرُالشریعہ “ پڑھئے ۔
Comments