15 دن میں 10 درہم کمالئے:ابنِ ماجہ شریف میں ہے کہ ایک انصاری نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکرسوال کیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ عرض کی: موجود ہے، ایک ٹاٹ ہے جس کا کچھ حصہ ہم بِچھالیتے ہیں کچھ اوڑھ لیتے ہیں، اور ایک پیالہ جس میں پانی پیتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دونوں چیزیں یہاں لے آؤ! انصاری نےحکم پر عمل کرتے ہوئے دونوں چیزیں حاضر کردیں، رسولُاﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اُنہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: یہ کون خریدتا ہے؟ایک شخص نے عرض کی: میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دو یا تین بار فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ ایک صاحب بولے: میں دو درہم میں لیتا ہوں۔ دونوں چیزیں اُن کو دے دیں اور دودرہم لے کر انصاری کودئیے اور فرمایا:ایک درہم کا غَلَّہ(راشن) خرید کر گھر میں دے دو اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر یہاں لے آؤ! وہ حُضُورِ اَنْوَر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس کلہاڑی لائے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دستِ اقدس سے اُس میں دَستہ ڈالا پھر فرمایا:جاؤ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو! اور اب میں تمہیں پندرہ دن تک نہ دیکھوں۔پھر وہ انصاری لکڑیاں کاٹتے اور بیچتے رہے۔ دوبارہ حاضر ہوئے تو دس درہم کما چکےتھے۔ مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سےارشاد فرمایا:چند درہم سے غَلَّہ(راشن) خریدو اورکچھ کا کپڑا، پھر فرمایا: یہ اِس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تمہارے منہ پر چھالاہوکرآتا۔(ابن ماجہ،ج3،ص35،حدیث:2198)
مراٰۃ المناجیح میں ہے: حلال پیشہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو بھیک مانگنے سے اَفْضل ہے کہ اِس میں دنیا و آخرت میں عزت ہے۔ افسوس! آج بہت سے لوگ اِس تعلیم کو بھول گئے، مسلمانوں میں صدہا خاندان پیشہ وَرْبِھکاری ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، ج3،ص65)
میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!فی زمانہ بھیک مانگنا(گداگری) ایک پیشے کی شکل اِختِیار کرچکا ہے، حالانکہ کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بھیک مانگنا غیرقانونی ہے۔اخبارات،سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور ذاتی مشاہدات سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ٭پیشہ وَرْ بھکاریوں کے منظم گروہ ہوتے ہیں جن میں بچے، مرد، عورتیں اور بوڑھے شامل ہوتے ہیں٭اِن کے اپنے اپنے عَلاقے اور اڈّے ہوتے ہیں جہاں کوئی اور بھیک نہیں مانگ سکتا٭بھکاریوں کو بھیک مانگنے کے طریقے سکھانا، اِن کو رہنے کی جگہ فراہم کرنا،اڈّے تک لانے لے جانےاور اِن کی نگرانی کا کام وہی لوگ کرتے ہیں جو دَرپردَہ اِس گروہ کو چلا رہے ہوتے ہیں،یہ بھکاریوں کی آمْدَنی میں سے خاص مِقْدار بھکاری کو دے کر باقی خود رکھ لیتے ہیں٭یہ گروہ بچوں، عورتوں اور مَردوں کو اِغْوَا کرکے اُن کے ہاتھ یا پاؤں وغیرہ کی توڑ پھوڑ کر کے اُن سے بھیک منگوانے جیسے ظالمانہ کام میں بھی ملوّث ہوتے ہیں٭کچھ بھکاری مُنَشِّیَات(نشہ آور چیزیں Drugs) بھی بیچتے ہیں ٭کچھ کھاتے پیتے مالدار گھرانوں کی نشاندہی کرکے ڈاکوؤں، اِغْوابرائے تاوان کرنے والوں اور بھتہ خوروں سے اپنا حصّہ بھی وُصول کرتے ہیں٭پیشہ وَرْ بھکاری بھیک مانگنے کے لئے نِت نئے طریقے اپناتے ہیں،جَعْلی مَعْذور،نقلی اندھااور جھوٹ موٹ کا بیماربننا، میک اَپ (Makeup) کے ذریعے ہاتھ یا چہرے پر نقلی زَخْم بنا کر زخمی اور بے روزگار وقَرْضْدار ہونے کا ایسا ڈرامہ کریں گے کہ انسان اُنہیں کچھ نہ کچھ بھیک دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ٭یہ بھکاری آپ کو بازاروں،چوکوں،ریل گاڑیوں، بَسوں کے اڈّوں، عوامی تفریح گاہوں، مَزاروں، مسجدوں کے باہر اوردیگر بارونق جگہوں پربھی نظر آئیں گے۔ اگر آپ ان کے گھیرے میں آگئے تو یہ کچھ لئے بغیر آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑیں گے ٭یہ پیشہ وَرْ بھکاری عُمرہ سِیْزَن (رجب، شعبان، رمضان) اور ایّامِ حج میں مُقَدّس مقامات پر بھی بھیک مانگنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں ٭پیشہ وَرْ بھکاری مختلف اَخلاقی بیماریوں مثلاً جھوٹ، لالچ، بے صبری ، دھوکا دہی، بے پردگی،جسم فروشی اور بےحیائی میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں، پھر میلا کچیلا رہنا ان کے پیشے کی مجبوری ہوتی ہے٭اِنہیں معقول تنخوا ہ پر گھر یا دفتر میں کام کاج کرنے کی آفر دی جائے تو اکثرٹال جاتے ہیں۔حکایت:بابُ المدینہ کراچی کے ایک علاقے میں بُرْقَع پوش اِسلامی بہن سے ایک بھکارن نے بھیک مانگی، اِسلامی بہن نے بڑی سنجیدگی سے آفر کی کہ میرے گھر صفائی ستھرائی کا کام کردیا کرو میں تمہیں باقاعدہ تنخواہ دوں گی تو بھکارن جھٹ سے بولی: باجی پیسے دینے ہیں تو دو،مذاق مَت کرو، اِسلامی بہن نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں واقعی تمہیں ’’ماسی‘‘ کی نوکری کی آفر کررہی ہوں تو وہ بھکارن وہاں سے رَفوچَکّر ہوگئی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیشہ وربھکاریوں کو بھیک دینا گناہ ہے جیسا کہ پہلی قسط میں فتاویٰ رضویہ جلد23،ص464 کے حوالے سے بیان ہوا،تو ہم نفلی صَدَقہ وخیرات کس کو دیں؟تو گُزارش ہے کہ اپنے رشتہ دار اور اِرْدگِرد کے سفید پوش لوگوں میں سے حاجت مَنْدوں کو تلاش کریں پھر حسبِ توفیق مُناسب انداز سے اُن کی مالی مدد کردیں کہ اُن کی عزّتِ نفس بھی برقرار رہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر آپ اُنہیں زکوٰۃدیناچاہتےہیں تو اُن کا زکوٰۃ لینے کا حقدار ہونا ضروری ہے۔ افسوس!بھکاری مافیا نے ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ اگر کوئی حقیقتاً پریشانی میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے مالی مدد کی درخواست کرے تو انسان کے لئے فیصلہ کرنا دُشوار ہوجاتا ہے کہ مالی مدد کی درخواست کرنے والا حقدار ہے یا پیشہ وَرْ بھکاری؟ چنانچہ اگر کبھی ایسی صورتِ حال کا سامنا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ضروری تفصیل معلوم کرنے کے بعداگر آپ کا دل جَمے کہ یہ واقعی حقدار ہے تو اس کی مدد کرکے ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اگر آپ کا دل مطمئن نہ ہوتونرمی سے انکار کردیجئے،لیکن اُسے بلاثُبوتِ شرعی فراڈی یا ڈرامہ باز یا پیشہ وَرْ بھکاری قرار دینے سے بچئے ۔
اللہ تعالٰی ہمارے معاشرے کوبھیک کے ناسور سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments