اشعار کی تشریح
قصیدۂ حجرۂ نبویہ(قسط : 01)
* مولانا راشد علی عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021
(یہ وہ مبارک قصیدہ ہے جو روضۂ مبارک کی جالیوں پر لکھا گیا ہے)
سیِّدِ کائنات ، فخرِ موجودات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس اور صِفات مبارَکہ کی خوبیوں کو تقریباً ہر زمانےاور ہر زبان ہی کے شاعروں نے مختلف نعتیہ کلاموں اور قصیدوں کے ذریعے بیان کرنے کی سعادت پائی ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ساری خَلقت میں سیِّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کی وہ ذات ہے ، جس کی مدح و ثنا میں سب سے زیادہ اَشعار لکھے گئے ہیں۔ اَشعار کی صورت میں پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ثنا خوانی کا یہ سلسلہ صحابۂ کرام کے دور سے لے کر آج تک تواتُراور تسلسُل کے ساتھ (Continuously) چلا آرہاہے اور اِنْ شَآءَ اللہ رہتی دُنیا تک جاری رہے گا۔
؎ وہی دُھوم اُن کی ہے ماشآءَ اللہ مِٹ گئے آپ مِٹانے والے
چودہ صدیوں میں لکھے گئے اِن نعتیہ کلاموں اور قصیدوں میں سے بعض کو بہت شہرت اور مقبولیت حاصل رہی ہے۔ لیکن اِن میں سے ایک قصیدہ ایسا بھی ہے ، جسے رسولِ عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ مقدَّسہ کے دَر و دِیوار کا قُرب پانے اور وہاں تحریر و نقش کئے جانے کا شرف حاصل ہوا ہے مگر افسوس! کہ اُس کے چند اشعار کو اب بہت ڈارک رنگ (Paint) کر کے چھپا دیا گیاہے۔ روضۂ مقدَّسہ کی دیواروں پرنقش ہونے کا شرف پانے کے سبب اس مبارَک قصیدے کا نام “ قَصِیْدَۃُ الْحُجْرۃِ النَّبَوِیَّۃِ الشَّرِیْفَۃ “ ہے۔
یہ مبارَک قصیدہ جس شخصیت نے تحریر کیا اس کا نام عثمانی خلیفہ ، سلطان عبد الحمید خان بن سلطان احمد خان رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 1203 ھ) ہے۔ یہ قصیدہ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بصورتِ استغاثہ عشق و مَحبت اور تعظیم و اَدب کا خوبصورت نذرانہ ہے۔ اِس قصیدے کے اَشعار میں جہاں رسولِ آخرُ الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں عرض و التجا کا عُنصر نظرآتا ہے ، وہیں پر اِس میں اسلامی عقائد اور نظریات کی زبردست ترجمانی کا رنگ جھلکتا ہے۔ اِس مبارک قصیدے میں سلطانِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے استِمداد(مدد مانگنے) کا مبارَک طریقہ ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساری مخلوق کےلئے ہادی و راہنما(Guide) اور قاسمِ فضل و نعمت ہونے کا بیان ہے ، کسی مقام پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےعَفو و کرم اور مقامِ محمود و منصبِ شفاعت کا تذکرہ ہے ، کسی جگہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خَلقِ خُدا کےلئے حامی و مددگار ہونے اور بارگاہِ الٰہی میں مخلوقِ الٰہی کا عظیم اور بہترین وَسیلہ ہونے کا ذکر ہے اور جگہ جگہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تمام مخلوقات ، حتی کہ اَنبیا و مُرسَلِین علیہمُ السّلام سے بھی اَفضل و اَعلیٰ (Superior) ہونے اور کائنات میں بےمِثل و بےمثال ہونے کا بیان ہے۔ یوں یہ مبارَک قصیدہ جہاں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فُیوض وبرکات اور اِنعامات و نوازشات پانے کا ایک وَظیفہ اور ذریعہ ہے ، وہیں پر اسلامی عقائد کی تعلیم و اِشاعت کا خوبصورت گُلدستہ اور گنجینہ ہے۔
یَاسَیِّدِیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ خُذْ بِیَدِیْ مَالِیْ سِوَاکَ وَلَا اَلْوِیْ اِلیٰ اَحَدِ
اےمیرےسردار! اے اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرا ہاتھ تھام لیجئے(مدد فرمائیے) آ پ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سِوا میرا کوئی نہیں ہے اور میں پھر کر کسی کی جانب نہیں دیکھتا۔ [1]
فَاَنْتَ نُوْرُ الْھُدَی فِیْ کُلِّ کَائِنَۃٍ وَاَنْتَ سِرُّ النَّدَی یَاخَیْرَ مُعْتَمَدِیْ
اس لئے کہ تمام موجودات میں موجود ہدایت کا نور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی تو ہیں۔ اور اے میرے بہترین ملجا و ما وا (پناہ گاہ و سہارے) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بخشش و سخاوت کا سرچشمہ ہیں۔
وَاَنْتَ حَقًّا غِیَاثُ الْخَلْقِ اَجْمَعِھِمْ وَاَنْتَ ھَادِی الْوَرَی لِلّٰہِ ذِی الْمَدَدِ
اور دَرحقیقت آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی تو ساری مخلوق کےیاوَر و مددگار ہیں۔ اور صداقت و نُصرت والے ربّ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ساری خَلقت (تمام مخلوقات) کے رہبر و راہنما ہیں۔ [2]
یَامَنْ یَقُوْمُ مَقَامَ الْحَمْدِ مُنْفَرِدًا لِلْوَاحِدِ الْفَرْدِ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَلِدِ
اے وہ سرورِ عالی مقام صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! جو مقامِ حمد(مقامِ محمود) پر تَنِ تنہا ہی جلوہ فرما ہوں گے ، اُ س خدائے یکتا و تنہا کی بارگاہ ِ عالی میں جو نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اُس کی کوئی اَولاد ہے۔
یَامَنْ تَفَجَّرَتِ الْاَنْھَارُ نَابِغَۃً مِنْ اِصْبَعَیْہِ فَرَوَّی الْجَیْشَ ذَا الْعَدَدِ
اے وہ ساقیِ کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! جن کی مقدَّس اُنگلیوں سے عالی مرتبہ اور عمدہ نہریں جاری ہوئیں ، تو اس (رحمت والے پانی) نے بڑی تعداد والے لشکر کو سیراب کردیا۔ [3]
(بقیہ اگلی قسط میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃ المدینہ ، فیضانِ اولیا کراچی
[1] اس شعر میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حرفِ نِدا “ یا “ کے ساتھ فریاد کےلئے پُکارا گیا ہے۔ شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کا شرعی حکم بیان فرماتے ہیں کہ یارسولَ اللہ کہنا بلاشبہہ جائز و مستحسن(اچھا) اور زمانۂ رسالت سے آج تک تمام اُمت میں رائج و معمول ہے۔ (فتاویٰ شارح بخاری ، 1 / 285) اس موضوع پر اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کا پورا رسالہ بنام “ اَنْوَارُ الْاِنْتِبَاہ فِیْ حلِّ نِدَاءِ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ “ فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود ہے۔
[2] سرکارِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم “ ھَادِی الْوَریٰ “ یعنی ساری مخلوق کوہدایت دینے والے ہیں ، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوتمام مخلوقات کی طرف نبی اور رسول بنا کر بھیجا گیاہےاور نبی و رسول کی تشریف آوری کا بنیادی مقصد ہی مخلوق کو سیدھی راہ دکھانا ہوتاہے۔ چنانچہ قراٰنِ مجید میں نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئےارشاد ہوتاہے : (تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱)) ترجَمۂ کنزالایمان : بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اُتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سُنانے والا ہو۔ (پ18 ، الفرقان : 1) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور سیِّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا : اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً یعنی میں تمام مخلوقات کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (مسلم ، ص210 ، حدیث : 1167)
[3] اِس شعر میں حضورِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُس عظیم معجزے کاذکر کیا گیاہے ، جو متعدد دفعہ مختلف جگہوں میں کثیر جماعت کے سامنےظاہر ہوا تھا ، کہ ساقیِ کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارَک اُنگلیوں سے بطور معجزہ پانی کے چشمے جاری ہوگئے۔ یہ معجزہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خصائص میں سے ہے۔
اُنگلیاں ہیں فیض پر ٹُوٹے ہیں پیاسے جھوم کر نَدِّیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
(حدائق بخشش ، ص134)
Comments