اشعار کی تشریح
مُہرِ نُبوّت پہ لاکھوں سلام
* مولانا راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
حَجرِ اَسْوَد کعبۂ جان و دل
یعنی مُہرِ نُبُوَّت پہ لاکھوں سلام[1]
الفاظ و معانی : حَجرِ اَسْوَد : سیاہ پتھر۔
شرح : مسلمانانِ عالَم کے لئے نماز کا قبلہ اور طواف کا مرکز تو مسجدِ حرام میں موجود کعبۂ مُشَرَّفہ ہے ، لیکن دل و جان اور اِیمان ، بلکہ کعبے کا بھی قبلہ و کعبہ ذاتِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے۔ اب اگر کسی کے سطحِ ذہن پر یہ سُوال نمودار ہو کہ نماز و طواف والے کعبے کے جُنُوب و مشرقی (SOUTH-EAST) کونے میں تو ایک جنَّتی پتھر “ حَجرِ اَسْود “ نَصْب ہے ، دل و جان کے کعبے کا حَجرِ اَسْوَد کیاہے؟ اعلیٰ حضرت ،
امام ِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کا مذکورہ بالا شعر گویا اِسی سوال کا جواب ہے۔ چنانچہ امامِ عشق و مَحبت ، عالِمِ قُراٰن و سُنَّت ، اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے ذکر کردَہ شعر کا معنی اور خُلاصہ (Summary) یہ ہے کہ جانِ اِیمان ، رحمتِ عالَمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نُورانی سراپا (پورا جسمِ اقدس) دِل و جان کا کعبہ ہے اور اس کعبے کا حَجرِ اَسْوَد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک شانوں (Blessed Shoulders) کے درمیان موجود مُہرِ نُبُوَّت ہے۔ اِس پیاری اور مُقدَّس مُہرِ مبارَک پر لاکھوں سلام ہوں۔
مُہرِ نبوَّت : سیِّدُالکُل ، امامُ الرُّسل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دونوں مبارَک شانوں کے درمیان کبوتری کے اَنڈے کے برابر ایک پیاری اور نُورانی مُہرِ نُبُوَّت تھی۔ یہ بظاہر سُرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت معلوم ہوتا تھا ، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا جابربن سَمُرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میں نے سُلطانِ دوجہان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دونوں مبارَک شانوں (یعنی کندھوں) کے درمیان “ مُہرِ نبوّت “ کو دیکھا جو کبوتری کے اَنڈے کی مقدار میں سُرخ اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ (الشمائل المحمدیۃ ، ص28 ، حدیث : 16) حکیمُ الاُمّت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس مُہرِ مبارَک کا ذِکْر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے) دو کندھوں کے بیچ میں کچھ اُبھرا ہوا گوشت تھا جس پر تِل تھے ، اگر بغور دیکھا جاتاتو محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) پڑھنے میں آتا تھا جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ یہ حُضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی نبوَّت کی علامت تھی ، اسے “ مُہرِ نبوَّت “ کہتے تھے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 8 / 45) مزید فرماتے ہیں : اسے مُہْرِ نبُوَّت اس لیے کہتے تھے کہ گزشتہ آسمانی کُتُب میں اس مُہْر کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خَاتَمُ النَّبِیِّیْن ہونے کی علامت قرار دیا گیا تھا ، وفات کے وقت یہ مُہْر شریف غائب ہوگئی تھی۔ (مراٰۃ المناجیح ، 1 / 318)
حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتضیٰ شیرِ ِخُدا رضی اللہُ عنہ مُہرِ نبوَّت کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں : بَیْنَ کَتِفَیْہِ خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ وَھُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ یعنی رسولِ عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُقدَّس کندھوں کے بیچ میں مُہرِ نُبوَّت تھی اور آپ خاتَمُ النبیین (یعنی تما م نبیوں میں آخری نبی) ہیں۔ (الشمائل المحمدیۃ ، ص20 ، حدیث : 6)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃ المدینہ فیضانِ اولیا ، کراچی
[1] یہ شعر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے نعتیہ دیوان “ حدائقِ بخشش “ ، ص303مطبوعہ مکتبۃ المدینہ سے لیا گیا ہے۔
Comments