(1)اللہ پاک
نے اپنے نام عطا فرمائے اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے ناموں میں سے کثیر نام
عطا فرمائے۔(الشفا،ج1،ص236)
رَئِیْسُ الْمُتَکَلِّمِیْن
مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(اللہ پاک نے) کسی
پیغمبر کو ایک اسم (نام) اور کسی کو دو تین اسم اپنے
اَسمائے شریفہ (یعنی مبارک ناموں میں) سے
دیئے مثلاً اسماعیل و اسحاق (علیہمَا
الصَّلٰوۃ وَالسَّلام) کو عَلِیْم اور حَلِیْم، ابراہیم (علیہ السَّلام) کو حَلِیْم اور نوح (علیہ
السَّلام) کو شَکُوْر اور موسیٰ (علیہ السَّلام) کو کَرِیْم اور یوسف (علیہ
السَّلام) کو حَفِیْظ اور یحییٰ (علیہ السَّلام) اور
عیسیٰ (علیہ السَّلام) کو بَرّ
فرمایا، محمد صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کو
سڑسٹھ (67) اسم اپنے اَسْمَائے مُتَبَرَّکہ
(یعنی برکت والے ناموں میں) سے عِنایت کیے (جو یہ ہیں): (1)حَکِیْم (2)رَحِیْم (3)سَلَام (4)مُؤْمِن (5)مُھَیْمِن (6)عَزِیز (7)جَبَّار (8)فَتَّاح (9)عَلِیْم (10)رَافِع
(11)سَمِیْع
(12)بَصِیْر
(13)عَدْل
(14)خَبِیْر
(15)حَلِیْم
(16)عَظِیْم
(17)غَفُوْر
(18)شَکُوْر
(19)عَلِی
(20)حَفِیْظ
(21)حَبِیْب
(22)کَرِیْم
(23)رَقِیْب
(24)مُجِیْب (25)وَاسِع (26)حَکَم
(27)شَھِیْد (28)حَق (29)وَکِیْل (30)قَوِی (31)مَتِیْن (32)وَلِی
(33)حَمِیْد
(34)مَاجِد (35)اَوَّل (36)آخِر
(37)ظَاھِر
(38)بَاطِن
(39)بَرّ
(40)عَفُوّ
(41)رَءُوْف (42)مُقْسِط (43)جَامِع (44)غَنِی (45)مُعْطِی (46)نُوْر (47)ھَادِی (48)رَشِیْد (49)صَبُوْر (50)قَائِم (51)حَافِظ (52)ذُوالْقُوَّۃ (53)ذُوالْفَضْل (54)کَفِیْل (55)شَاکِر (56)قَرِیْب (57)مُبِیْن (58)بُرْھَان (59)مُنِیْب (60)کَافِی (61)عَالِم (62)نَصِیْر
(63)صَادِق (64)اَحَد (65)مُنِیْر
(66)وَافِی
(67)اَکْرَم۔(سرورالقلوب، ص318)
اللہ کریم
نے اپنے ناموں میں سے کتنے نام عطا
فرمائے؟اے عاشقانِ رسول! اللہ کریم نے اپنے پیارے پیارے ناموں یعنی اَسْمَاءُ الْحُسْنٰی میں
سے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کتنے نام عطا فرمائے،اس سے متعلق علمائے کرام
کے مختلف اقوال ہیں۔ رَئِیْسُ الْمُتَکَلِّمِیْن مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے سڑسٹھ (67) نام بیان فرمائے جبکہ امام جلالُ الدّین سُیوطی شافعی رحمۃ
اللہ علیہ نے ستّر(70) نام عطا ہونے کا قول اختیار فرمایا۔ (انموذج اللبیب،ص28)شیخ عبدالکریم جیلی شافعی یمنی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”اَلْکَمَالَاتُ الْاِلٰہِیَّۃُ فیِ الصِّفَاتِ
الْمُحَمَّدِیَّۃِ“ میں تیسرے باب کا نام رکھا:اِتِّصَافُ مُحَمَّدٍ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بِالْاَسْمَاءِ
وَالصِّفَاتِ الْاِلٰہِیَّۃِ (یعنی محمدِ عربی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اللہ پاک کے ناموں اور صفات سے مُتَّصِفْ ہونا)اور اس میں
اللہ کریم کے کثیر نام دلیل کے ساتھ حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے
ثابت فرمائے۔ امام یوسف بن اسماعیل نَبہانی رحمۃ
اللہ علیہ نے اس میں سےاللہ کریم کے 99 نام دلیل کے ساتھ
حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے نقل فرمائے۔(جواہر البحار ،ج 1،ص275)
خوف ہے گر کچھ روزِ جز ا کا دل پہ جما کر نام خدا کا
وِرد کرو اسمائے محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
(2)لُعابِ دہن
آبِ شِفا کا کام دیتا پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے لُعابِ دہن (یعنی مبارک تھوک) کے ذریعے ظاہری اور باطنی امراض سے شفائیں حاصل ہوتی تھیں۔(زرقانی علی الموا ھب،ج 5،ص288)
پیارے
اسلامی بھائیو! سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لُعابِ دہن کی برکت سے تکلیفیں دور ہونے اور مسائل حل ہونے کے کئی واقعا
ت ہیں۔ ایک ایمان افروز حکایت ملاحظہ فرمائیے:
80 سال کی عمر
میں سُوئی میں دھاگہ ڈال لیتے حضرت سیّدُنا فُدَیک رضی
اللہ عنہ کی آنکھیں سانپ کے انڈوں پر پاؤں پڑنے کی وجہ سے سفید ہوگئی تھیں اور دونوں
آنکھوں سے کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ رحمتِ عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی
آنکھوں میں لُعابِ دہن ڈالا تو اُسی وقت آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور نظر آنے لگا۔ راوی
کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیّدُنا فُدَیک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ (لُعابِ دہن کی برکت سے) اسّی(80) سال کی عمر میں سوئی میں دھاگہ ڈال لیا کرتے تھے۔(کنزالعمال،جز:12،ج 6،ص168،حدیث:35381،نسیم
الریاض،ج 4،ص86)
جس کے پانی سے شاداب جان و جِناں
اس دَہَن کی طَراوَت پہ لاکھوں سلام
(3)سب سے زیادہ
حسین و جمیل شخصیت امام جلالُ الدّین سُیوطی شافعی رحمۃ
اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:حضرت سیّدُنا یوسف علیہ
السَّلام کو تمام انبیا و مُرسلین
علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام بلکہ ساری مخلوق سے زیادہ حُسن
و جمال عطا کیا گیا لیکن ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کوایسا حُسن و جمال مِلا جو کسی اور کے حصّے میں نہیں
آیا۔حضرت سیّدُنا یوسف علیہ السَّلام کو حُسن کا آدھا حصّہ مِلا لیکن رسولِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
حُسنِ کُل(یعنی سارے کا سارا حسن) عطا
کیا گیا۔ (خصائص
کبریٰ،ج2،ص309)
جو دیکھیں حضرتِ یوسف جمالِ سَیّدِ عالَم
تو فرمائیں قسم حق کی مَلاحَت اس کو کہتے ہیں
پورا حُسن ظاہر نہ کیا گیا امام قُرطُبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پورا حُسن و جمال ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا،اگر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں دیدارکی طاقت نہ رکھتیں۔(زرقانی علی الموا ھب،ج 7،ص94)
اک جھلک دیکھنے کی تاب
نہیں عالَم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون
تماشائی ہو
چاند سے زیادہ
خوبصورت حضرت سیّدُنا جابر بن سَمُرَہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے چاندنی رات میں اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سُرخ (دھاری
دار) جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ میں کبھی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھتا
اور کبھی چاند کو، میرے نزدیک آپ چاند سے
بھی زیادہ خوبصورت تھے۔ (ترمذی،ج 4،ص370، حدیث:2820،مراٰۃ
المناجیح،ج 8،ص60)
تِیرۂ دِل کو جلوۂ ماہِ عرب درکار ہے
چودھویں کے چاند! تیری چاندنی اچھی نہیں
آسمان کے چاند سے بہتر کیوں؟ اے
عاشقانِ رسول! اس روایت کے تحت حضرت علّامہ علی بن سلطان محمد قاری رحمۃ
اللہ علیہ نے مدینے کے چاند صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
آسمان کے چاند پر فضیلت سے متعلق چند نِکات بیان فرمائے ہیں۔ان ایمان افروز نِکات کو قدرے تفصیل کے ساتھ اپنے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
(1)آسمان کا چاند صرف دنیا کو روشن کرتا ہے لیکن مدینے کے چاند صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بدولت
دنیا کے علاوہ انسانوں کے دل بھی روشن ہوگئے (2)آسمان کے چاند کا نُور سورج
سے لیا ہوا ہے جبکہ مدینے کے چاند صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نُور مخلوق میں سے کسی سے حاصل کردہ
نہیں(3)آسمان کے چاند کا نُور دوپہر میں
ظاہر نہیں ہوتا جبکہ مدینے کے چاند صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نُور دن
اور رات میں ہر وقت ظاہر رہتا ہے (4)آسمان کا چاند بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے، اسے
گرہن بھی لگتا ہے اوریہ غُروب بھی ہو تا ہے لیکن مدینے کے چاند صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے
زوال اور غُروب ہونانہیں ہے۔
ان نکات کو بیان کرنے کے بعد علّامہ علی قاری رحمۃ
اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:ان نِکات سے معلوم ہوا کہ مدینے
کے چاند صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسی کثیر خوبیاں اور صفات حاصل ہیں جن سے آسمان
کا چاند محروم ہے۔(جمع الوسائل فی شرح الشمائل،ص56 ماخوذاً)
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پر دہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
کُتّے کے ضرر سے محفوظ رہنے کا وظیفہ
تفسیرِ صراط الجنان،جلد5صفحہ548 پر ہے کہ
وَ
كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ-(پ15،الکھف:18)
ترجمہ کنزالایمان:اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ
پر ۔
جو ان کلمات کولکھ کر پاس رکھے تو کتے کے ضَرر سے امن میں رہےگا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…کاشف شہزاد عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments