رسولِ کریم، رَءُوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
لَایُؤْمِنُ
اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہٖ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِهٖ وَالنَّاسِ
اَجْمَعِین یعنی کوئی
شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور
تمام لوگوں سے زیادہ محبوب (یعنی
پیارا) نہ
ہو جاؤں۔ (بخاری،ج1،ص17، حدیث:15)
علّامہ شمسُ الدّین سَفیِری شافعی رحمۃ اللہ علیہ(وفات: 956ھ) شرح بخاری میں اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کا
ایمان کامل نہیں یہاں تک کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے نزدیک اپنی اولاد اور والدین سے زیادہ محبوب نہ ہوں تو جسے حضور
پُرنور علیہ الصَّلٰوۃ
وَالسَّلام والدین
اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوں وہ ناقص ایمان والا ہے۔جبکہ علّامہ ابنِ بَطَّال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُمّتی
پر نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق اولاد، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ ہے،اس لئے کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں دوزخ سے بچایا اورگمراہی سے ہدایت
بخشی۔(شرح بخاری للسفیری،ج1،ص405 )
سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مَحبَّت کے بارے میں قراٰنِ پاک میں
کس درجہ تاکید ہے، ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
(قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴))
تَرجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور
تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ
سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری
ہوں تو راستہ دیکھو (انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔(پ10،التوبۃ:24)
مَحَبّت کے مختلف درجات:٭امام شہابُ الدّین احمد بن محمد قَسْطَلَّانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مَحبَّت کی انتہا یہ ہے کہ
بندہ محبوب کی خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح دے۔(ارشاد الساری،ج 1،ص164،تحت الحدیث:14)
٭حضرت ابو عبداللہ قُرَشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حقیقی محبت یہ ہوتی ہے کہ مُحِب
اپنا سب کچھ محبوب کو پیش کردے اور اپنے پاس
کچھ بھی نہ رکھے۔
٭حضرت ابوبکر شِبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مَحبَّت کو اس لئے محبت کہتے ہیں کہ یہ محبوب کے علاوہ دل سے ہر چیز کو
مٹا دیتی ہے۔(رسالہ قشیریہ،ص351)
بخاری شریف کی ذِکْر کَردہ حدیثِ پاک میں والد، اولاد اور تمام
لوگوں کا ذکر ہے، مگراس میں بندے کی اپنی ذات بھی شامل ہے، لہٰذا اس حدیث سے مراد یہ نہیں کہ والد اور اولاد سے بڑھ
کر تو محبت کرے لیکن اپنی ذات کو سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ محبوب سمجھے، اگر ایسا ہوگا تو
بھی ایمان اپنے کمال کو نہ پہنچا جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ میں سوائے اپنی جان کے آپ سے ہر چیز سے بڑھ
کر محبت کرتا ہوں۔ نبیِّ پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے عمر! جب تک میں تجھے تجھ سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں (تب تک ایمان کامل نہیں ہوگا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:حُضور آپ مجھے مجھ سے بھی زیادہ پیارے ہوگئے ہیں۔
فرمایا:اے عمر!اب(تیرا ایمان
کامل ہوگیا)۔(بخاری،ج4،ص283،حدیث:6632،عُمدۃُ القاری،ج1،ص222،تَحت
الحدیث:14)
مَحبَّت کا تقاضا:نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی مبارک سنّت کو اپنایا جائے، آپ کے دِین کی
مدد کی جائے، آپ کے اَقوال و اَفعال کی اِتِّباع کی جائے، جن باتوں کا حکم دیا ان
کو بَصَد شوق بجالایا جائے اور جن باتوں سے منع فرمایا ان سے باز رہا جائے۔
مَحبَّت کرنے والوں کے تذکرے (1)حضرت سیِّدُنا ثوبان رضی اللہ عنہ ایک دن حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ان کا رنگ مُتَغَیَّر (یعنی بدلا ہوا) تھا اور رَنج و مَلال ان کے چہرے سے نُمایاں تھا۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پریشانی کا سبب پوچھا۔عرض کی:یَارسولَ اللہ! مجھے دَرد ہے نہ بیماری مگر جس وقت آپ کو نہیں دیکھتا بےتاب ہوجاتا ہوں، قِیامت کے دن اگر جنّت میں بھی جاؤں گا (تو اپنے اعمال کے مطابق مقام و مرتبہ پاؤں گا،) آپ تو انبیائے کرام علیہم السَّلام کے ساتھ اعلیٰ مقام پر ہونگے، حُضور میں وہاں کس طرح پہنچوں گا جس وقت آپ کی زِیارت نہ کر سکوں گا بِہِشت سے کیا لُطف حاصل کروں گا؟ ان کی تسلی کے لئے قراٰنِ کریم کی یہ آیت نازِل ہوئی: ( وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹))تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(تفسیرِ بغوی،پ5،النسآء، تَحت الآیۃ: 69،ج 1،ص 358مفہوماً)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(2)امام سَفِیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے عرض کی:مجھے
نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبر کی زیارت کرا دیجئے، اُسے قبر شریف دکھائی تو وہ عورت اس قدر بےتاب
ہوئی کہ روتے روتے(اس کا)انتقال ہوگیا۔(شرح بخاری للسفیری،ج1،ص408)
(3)امام مالِک رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت
اَیُّوب سَخْتِیانی رحمۃ
اللہ علیہ کے بارے میں
پوچھا گیا تو آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا کہ
جب وہ رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک ذِکْر سنتے تو اس قدر روتے کہ مجھے ان پر رحم آجاتا۔
(4)امام ابنِ شہاب زُہری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذِکْر کیا جاتا تو آپ اىسے ہوجاتے
گوىا کہ نہ ہم ان کو جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتے ہیں۔
(5)حضرت عامر بن عبدُاللہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہم کے پاس جب سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذِکْر کیا جاتا تو وہ اس قدر روتے کہ
آنکھوں میں آنسو باقی نہ رہتے۔
(6)حضرت صَفْوان بن سُلَیم رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب نبیِّ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ذکر ہوتا تو
رو پڑتے اور اتنی دیر تک روتے رہتے کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے۔(الشفا،ج2،ص41تا43 ملخصاً)
مَحبَّتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حُصُول کاایک بہترین ذریعہ دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول ہے کہ جس سے
منسلک ہونے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد عشقِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جام بھر بھر کر پیا کرتے ہیں۔
سرشار مجھے کردے اِک جامِ لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
اللہ کریم اپنے محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں جینا اور مرنا نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…محمد حمزہ عطاری
مدنی
٭…استاذدورۃ الحدیث
جامعۃ المدینہ اوکاڑہ
Comments