کسی بھی معاشرے (Society) کو پُرامن بنانے اوراس میں سنتوں کی بہار لانے کے لئے اس
کے افراد کی درست تربیت Training)) بے
حد ضروری ہے کیونکہ فرد سے معاشرہ بنتا ہے۔ جس معاشرے میں فرد کی تربیت صحیح انداز سے نہ ہوتو اس کے
مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ بھی خستہ
حالی کا شکار رہتا ہے۔اگرہم اپنے ارد گرد
کا ماحول اسلامی اقدار کے مطابق بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ
دیگر لوگوں کی تربیت بھی کرنی ہوگی۔اگر تربیت کی اس اہم ذمہ داری کو بوجھ تصور کر کے اس سے غفلت
برتتے رہے تو معاشرے کا بگاڑ بڑھتا چلا
جائے گا جس کا کسی حد تک
مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
تربیتِ مصطفےٰ: ہمارے
پیارے آقا صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم اپنے
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی وقتاً فوقتاً تربیت فرماتے رہتے تھے
،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لوگوں کے مزاج و عادات اور نفسیات کی شناخت میں کمال حاصل تھا ۔ہر ایک
سے اس کے مرتبے کے لائق سلوک فرماتے اور
اس طریقے سے سامنے والے کی تربیت فرماتے کہ بات اس کے دل میں اُتَر جاتی۔ایک مرتبہ
سرکارمدینہ صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی
دیکھی تو ان کی وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اپنے
ہاتھ میں دوزخ کا انگارا لینا چاہتا ہے؟سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم
کی اس تربیت کا اُن صحابی رضی
اللہ عنہ پر ایسا
اثر ہوا کہ آپ صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے تشریف
لے جانے کے بعد ان سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی لے لو اس سے کوئی اور نفع اٹھالو،
لیکن انہوں نے کہا: نہیں !خدا کی قسم!جس انگوٹھی کو اللہ
کے رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے پھینک ديا میں اسے کبھی نہيں اٹھاؤں گا۔(مسلم،ص891،حدیث
2090)
فرمانِ رسول پر عمل کا جذبہ:
پیارے اسلامی بھائیو!اگر وہ صحابیِ رسول چاہتے توانگوٹھی فروخت کرکے اس کی قیمت
سے فائدہ اٹھالیتے یاکسی کو تحفے میں دے دیتے یا پھر اُسے دے دیتے جس کے لئے اسے پہنناجائز ہے یعنی اپنے گھر کی کسی عورت کو اس کا مالک بنادیتے
لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آقا صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اسے پھینک دیا تھا۔ شارحِ مسلم حضرت امام
نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابیِ
رسول کےاس طرح فرمانے میں نبیِّ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے حکم کی
بجا آوری اورآپ کی منع کردہ باتوں سے بچنے کا بہت زیادہ اہتمام پایا جارہا ہے۔نیز
انہوں نے کمزور تاویلات کرکے انگوٹھی اٹھا لینے کی رخصت پر عمل نہیں کیا اور
انگوٹھی فقرا اور دیگر لوگوں کے لئے مباح کرتے ہوئے وہیں چھوڑدی تاکہ ان میں سے جو
چاہے اٹھالے تو اس وقت لوگوں کے لئے وہ انگوٹھی اٹھانا اور اس کا استعمال کرنا
جائز ہوگیا اور اگر وہ انگوٹھی خود ہی اٹھالیتے تو ان کا یہ اٹھانا اور
اسے بیچ کر یا کسی اورطریقے سے اس کا استعمال کرنا جائز تھا کیونکہ حضورانور صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے انگوٹھی کو بالکل ہی استعمال کرنے سے منع
نہیں کیا تھا بلکہ صرف اس کو پہننے سے منع فرمایا تھا۔پہننے کے علاوہ دیگر تصرُّفات
ان کے لئے جائز تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے اٹھانے سے پرہیز کیا اور اس انگوٹھی کوحاجت مند پر صدقہ
کرنے کی نیت کرلی۔(شرح النووی
علی صحیح مسلم،جزء14،ج 7،ص66،65)
حکمت و دانائی سے بھرا اندازِ تربیت: ہمارے پیارے آقا صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے طریقۂ تربیت میں حکمت و
دانائی تھی، آپ ہر کسی کو اس کی غلطی پر براہ راست نہیں سمجھاتے تاکہ سامنے والا اپنی بے عزتی محسوس نہ کرے، اگر بعض لوگوں
کی کچھ کوتاہیوں کی خبر آپ تک پہنچتی تو اکثر اجتماعی طور پر اس غلط طرزِ فکر اور نامناسب عمل کی اصلاح
فرمادیتے،اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ دوسروں کو بھی راہنمائی مل جاتی۔ ابو داؤد شریف
میں ہے: حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہابیان کرتی ہیں: حضورِ اکرم کو جب کسی کی بات پہنچتی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ نہ
فرماتے : فلاں کا کیا معاملہ ہے کہ جو یہ
کہتا ہےبلکہ فرماتے:ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی بات کہتے ہیں۔ (ابو
داؤد،ج4،ص328،حدیث4788)
نہ ڈانٹا اور نہ ہی برا بھلا کہا: سرکارِ دو عالَم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم اگر کبھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہِ راست تنبیہ کی جائے تو انتہائی نرمی اور محبت بھرے انداز میں سمجھاتے تاکہ سامنے والا حق بات قبول کرنے
کے لئے آمادہ ہوجائے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک دیہاتی مسجد میں داخل
ہوااور کونے میں جا کر پیشاب کرنے لگا،صحابہ کرام اسے روکنے لگے تو حضور نے
فرمایا: اسے نہ روکو چھوڑ دو، جب اس نے پیشاب کر لیا تو بلا کر ارشاد فرمایا:یہ
مسجدیں پیشاب اورگندگی کے لئے نہیں،یہ تو ذکرِ الٰہی، نماز اور تلاوتِ قراٰن کے لئے
ہیں۔(صحیح
مسلم، ص133، حدیث:661 ملتقطاً) ایک روایت
میں ہے:وہ دیہاتی آپ کے اخلاق کریمانہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے آپ صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے اندازِ تربیت کا
یوں بیان کیا :
فَقَامَ إِلَيَّ بِأَبِي وَأُمِّي، فَلَمْ يُؤَنِّبْ وَلَمْ يَسُبّ یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری
طرف تشریف لائے، میرے ماں باپ ان پر قربان! انہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا اور نہ ہی
بُرا بھلا کہا۔ (ابن ماجہ،ج 1،ص300، حدیث529)خیال
رہے ان صحابی کے قبولِ اسلام کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا نیز صحبتِ نبوی سے بھی
دور تھے اس لیے اَحکامِ شرع سےلا علمی کی بنا پر ان سے یہ عمل سرزد ہواا وگرنہ
حکمِ شرعی یہ ہے کہ ”مسجد میں پیشاب کرنا حرام ہے۔“(مرقاۃ
المفاتیح،ج 2،ص194، تحت الحدیث: 491ملخصاً،بہار شریعت،ج 1،ص645ماخوذاً)میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ آپ عملی
زندگی کے خواہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں اگر اپنی اور اپنے متعلقین کی صحیح انداز سے تربیت
کرنا چاہتے ہیں تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سیرت کا مطالعہ کیجئے، اس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس طرح لوگوں کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر حکمتِ عملی کے ساتھ لوگوں کی تربیت فرماتےتھے۔
اللہ کریم ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی پیر وی کا جذبہ عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم
نوٹ: یہ مضمون نگرانِ
شوریٰ کے بیانات اور گفتگو وغیرہ کی مدد سے تیار کرکے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش
کیا گیا ہے۔
کتاوغیرہ کاٹ لے تو!
کتا،بلی،بھیڑیا اور خَرگوش جیسے جانوروں میں ایک
وائرس ہوتا ہے جسے ”ریبیز “ (rabies) کہتے ہیں، ایسے وائرس والے جانور کے کاٹنےسےجان
جانے کا بھی خطرہ ہوتاہے۔ اگرکوئی اس طرح کا جانور
کاٹ لےتوفوراًسانس روک کراس کٹے ہوئے حصے کے اِردگِرد انگلی
گھماتےہوئے” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ! “سات بار پڑھ
کراس پرپھونک مار دیں، اگر زہر ہوا تو اِنْ شَآءَ اللہ اُتر جائے گا۔
اللہ کریم ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم
مشورہ: ایسےموقع پر ڈاکٹرسے ضرور
رجوع کیجئے ۔
کتّا پیچھے پڑ جائے تو!
اگر کہیں کتّا بھونک رہا ہو اور
اس کے کاٹنے کا اندیشہ ہوتو تین مرتبہ”یاحَیُّ یاقَیُّومُ“کہہ لیں، اللہ پاک نےچاہاتووہ کتا
چُپ ہوجائے گا یا چلا جائے گا۔ اللہ کریم ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments