ایک ٹیچر نے اپنی کلاس کے 60اسٹوڈنٹس کو ایک ایک غُبارے (Balloon)میں ہوا بھرنے کا کہا، پھر ہر غُبارے پر اس طالبِ علم کا نام لکھوا کر تمام غُبارے ایک کمرے میں ڈَلوا دئیے پھر اسٹوڈنٹس سے مخاطِب ہوا:آپ کے پاس 10 منٹ ہیں، اس کے بعد ہر ایک کا غبارہ اس کے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔اب سب نے کمرے میں جاکر اپنا غُبارہ تلاش کرنا شروع کیا، حالت یہ تھی کہ 60 اسٹوڈنٹس تلاش کرنے والے تھے اور 60 ہی غُبارے !ایسے میں جو کوئی غُبارہ اُٹھاتا وہ کسی اور کا نکلتا چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ دس منٹ کا وقت ختم ہونے کے بعد چند ہی طلبہ کو اپنا غُبارہ مِل سکا باقی خالی ہاتھ تھے۔ اب ٹیچر نے اسٹوڈنٹس سے کہا کہ آپ نے روایتی طریقہ (Traditional Method) اپنا یا کہ سب نے ایک ساتھ کمرے میں گھسنے اور صرف اپنا غُبارہ تلاش کرنےکی کوشش کی تو آپ سب کامیاب نہ ہوسکے۔ ذراسوچئے ! اگر آپ یہ حکمتِ عملی (Strategy) اپناتے کہ آپ ایک ایک کرکے اندر جاتے اور جو غبارہ ہاتھ لگتا اسے لے کر باہر آجاتے اور اس طالبِ علم کو دے دیتے،یوں شاید دس منٹ سے پہلے ہی آپ لوگوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں اس کا غُبارہ پہنچ جاتا ، کیونکہ میں نے یہ شرط (Condition) تو رکھّی ہی نہیں تھی کہ آپ صرف اپنا غُبارہ باہر لائیں گے دوسرے کا نہیں!یہ سُن کر طَلَبہ حیران رہ گئے۔ اس کے بعد ٹیچر نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھئے! جو ہروقت صرف اپنا مَفاد (Personal Interest) پیشِ نظر رکھتا ہے کہ دوسروں کو ملے نہ ملے مجھے فُلاں چیز مل جائے تو دوسرے بھی اس کے فائدے کاخیال نہیں کرتے، اسی طرح جو شخص دسترخوان پر دوسروں کا پیٹ بھرنے کےلئے قُربانی دے گا تو آٹو میٹک کوئی دوسرا بھی اس کا پیٹ بھرنے کی فکر کرے گا، مشہور ہے: ’’کر بھلا ہو بھلا!‘‘ میں نے اپنی زندگی میں یہی سنا اور دیکھا ہے کہ جو لوگ کُھلے دِل کے ہوتے ہیں،دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں کنجوسی نہیں کرتے وہ اُن لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو ہر وقت صرف اپنے لئے کچھ نہ کچھ سمیٹنے کی فکر میں رہتے ہیں، پیارے طَلَبہ! آپ بھی اللہ کریم کی رضا کیلئے اس اُصول کو اپنا کر دیکھئے ، کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی ،اِنْ شَآءَ اللہ ۔
پیارےاسلامی بھائیو!اس فرضی حکایت میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے ۔ہم زندگی میں بہت سارے کام کرناچاہتے ہیں، لیکن سب نہیں کر پاتے بلکہ کچھ ہوجاتے ہیں کچھ رہ جاتے ہیں پھر ہم پریشان ہوتے ہیں کہ جو کام ادھورے (Incomplete) رہ گئے وہ کیونکر مکمل ہوں! غور کیجئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر کام کو مخصوص اور روایتی انداز میں کرنے کے عادی ہوں، مثلاً 4 حاصل کرنے کیلئے عام طور پر2میں 2 کوجمع کیا جاتا ہے یا پھر2کو 2 سے ضرب دی جاتی ہے اور نتیجہ 4 نکلتا ہے، حالانکہ ضرورت پڑنے پراسے مزید کئی طریقوں (Methods)سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ،مثلاً
(3+1=4) |
|
(17-13=4) |
|
(12/3=4) |
(5-1=4) |
|
(9-5=4) |
|
(3+5-4=4) |
مثال(Example) بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنا طریقہ بدل کر دیکھئے
ہوسکتا ہے کہ ہماری نئی حکمتِ عَمَلی کامیاب ہوجائےاور ہم ناکامی سے بچ جائیں۔گمشدہ خزانہ :اللہ کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَلْحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ اَحَقُّ بِهَا یعنی حکمت مومن کا گمشدہ خزانہ ہے، لہٰذا مومن اسے جہاں پائے وہی اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ (ترمذی ،ج4،ص314،حدیث:2696)
اے عاشقانِ رسول !آپ نے حضرت سیدنا لُقمان حکیم رضی اللہ عنہ کا نام تو سُنا ہوگا،یہ حضرتِ سیّدنا ایّوب علیہ السَّلام کے بھانجے تھے۔ انہیں ’’حکیم‘‘اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک نے ان کو حکمت و دانائی سے نوازا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ کے حکمت بھرے فرامین میں سے یہ بھی ہے: میرے بیٹے!اتنا میٹھابھی نہ بَن کہ تجھے نِگل لیا جائے اورنہ اتنا کَڑوا ہوجا کہ تجھے اُگل(یعنی باہر پھینک) دیا جائے۔( شعب الایمان،ج4،ص 231،رقم: 4891) حکمت عقل اورسمجھ کو بھی کہتے ہیں اور معاملہ فہمی اور کاموں میں پختگی کو بھی حکمت کہا جاتا ہے۔(صراط الجنان،ج 7،ص484 ملخصاً)
حکمت ودانائی (Wisdom) کی ضرورت کہاں نہیں ہوتی، زندگی میں کامیابیاں سمیٹنی ہوں یا ناکامیوں سے بچنا ہو،حکمتِ عملی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اس بات کو ایک فرضی حکایت سے سمجھتے ہیں۔پُرانے دور کاایک بادشاہ (King)کئی دنوں سے پریشان دکھائی دے رہا تھا ،ایک پُرانے اور خاص دوست (Best friend) نے سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ کچھ عرصے سے عجیب معامَلات دیکھ رہا ہوں کہ جو بھی اہم بات میں اپنے وزیروں (Ministers) کے ساتھ شیئر کرتا ہوں وہ عوام میں پہنچ جاتی ہے، یوں شاہی راز کُھل جاتے ہیں جس کا نقصان ہوتا ہے، میں نے کافی جانچ پڑتال (Investigation) کی ہے لیکن راز کھولنے والا پکڑا نہیں جاسکا۔ دوست نے مشورہ دیا کہ تم ہر وزیر سے اکیلے میں ملاقات کرو اور ہر ایک کو الگ الگ راز کی بات کہو پھردیکھو کہ کونسی بات عوام میں مشہور ہوتی ہے !یوں تمہارا مجرم پکڑا جاسکتا ہے۔ بادشاہ نے اسی رات ہروزیر کو الگ بات راز دارانہ انداز میں بتائی اور تاکید کی کہ کسی اورسے نہ کہنا، دوسرے دن شام تک وہ بات مشہور ہوگئی جو بادشاہ نے طارق نامی وزیر سے کہی تھی یوں رفیقِ خاص کی بتائی ہوئی حکمتِ عملی (Strategy) کی بدولت شاہی راز کھولنے والا پکڑا گیا۔
17حکمتِ عملیاں
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! چند حکمتِ عملیاں پیشِ خدمت ہیں، موقع اور کیفیت کے مطابق کمی بیشی کرکے عمل کرکے دیکھئے اِنْ شَآءَ اللہ مُفید پائیں گے: (1)بچّوں کی ضِد کے حوالے سے کثیر والدین پریشان رہتے ہیں ، بچّے کے ہر مطالبے کے جواب میں ’’نہیں، ہرگز نہیں‘‘ کہنے کے بجائے ’’کچھ دو کچھ لو ‘‘کی پالیسی پر عمل کی صورت میں ان کی پریشانی کم ہوسکتی ہے وہ اس طرح کہ بچّوں کا وہ مطالبہ (Demand) جونقصان دِہ نہ ہو مان جائیں اور جو نقصان دِہ ہو اس کا کوئی متبادل(Substitute) بچّے کو فراہم کرنے کی کوشش کریں مثلاً بچّہ کھلونا پستول سے کھیلنا چاہتا ہے تو اسے کھلونا جیپ یا کار دے کر بہلایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اس کی ہر بات پر اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے تو وہ بھی اپنی منوانے کی کوشش کرے گا یوں ضِد کے مقابلے میں ضِدجنم لے گی اور پریشانی پیدا ہوگی(2) ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بچّے کو ڈِھیٹ کردیتی ہے اگر انعام وترغیب کا انداز اپنالیا جائے تو آپ اپنی بات قدرے آسانی سے منوا سکتے ہیں، حضرتِ سیِّدُنا زُبید اِیامیرحمۃ اللہ علیہ اپنے محلّے کی مسجدمیں مؤذّن تھے۔آپ بچّوں کو کہا کرتے: بچّو! چلو نماز پڑھو، میں تمہیں اخروٹ دوں گا۔ بچّے آکر نماز پڑھتے پھر آپ کے اِرْد گِرْد جمع ہو جاتے۔ ہم نے ان سے کہا: آپ ایساکیوں کرتے ہیں؟ فرمایا: اس میں میرا کیا جاتا ہے کہ میں ان کے لئے پانچ درہم کے اخروٹ خریدوں اور وہ نماز کے عادی بن جائیں۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 5،ص35،رقم: 6220) لیکن یہ خیال رہے کہ بچّے سے جس انعام (Gift) کا وعدہ کیا جائے وہ اس کو دیا بھی جائے ورنہ وہ آئندہ قابو میں نہیں آئے گا (3)’’اینٹ کا جواب پتّھر سے دینا‘‘ اکثر نقصان دِہ ثابت ہوتا ہے، نرمی (Politeness) بہترین حکمتِ عَمَلی ہے کیونکہ آگ کو پانی سے بجھایا جاسکتا ہے آگ سے نہیں (4)’’رائی کا پہاڑ بنانے والے (یعنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا سمجھنے والے )‘‘ پریشان نہیں ہوں گے تو کون ہوگا؟ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز (Ignore) کرنا سیکھئے ورنہ زندگی مشکل ہوجائے گی، چھوٹی چھوٹی باتوں کو بِلاوجہ نوٹ کرنے والے کو لوگ اَہَمّیَّت دینا چھوڑ دیتے ہیں (5) جب تک شرعاً و عُرفاً لازم نہ ہوجائے کسی کے ذاتی معاملات میں دَخَل اندازی (Interference) نہ کیجئے کہ فُلاں کو یہ پہننا چاہئے، یہ کھایا کرے، یہاں نہ جائے وہاں نہ جائے، یہ چیز خریدنے کی کیا ضرورت تھی؟ وغیرہ ، ورنہ لوگ آپ سے تنگ آجائیں گے اور کَترانے لگیں گے (6)اسی طرح آفس ، ادارے، اسکول کالج وغیرہ کے اجتماعی معاملات میں بھی وہی سُکھی رہتا ہے جو دوسروں کے لئے بات بات پر مسائل کھڑے نہیں کرتا، اس لئے’’No Problem Man “ بَن کر رہیں، لوگ بھی آپ کے لئے مسائل کھڑے نہیں کریں گے۔ ذاتی مَفادات (Personal Interests) کو اجتماعی فائدوں کی خاطر قُربان کرنا سیکھئے لوگ آپ کے ساتھ رہنا پسند کریں گے (7)کچھ کاموں کے لئے کچھ لوگ خاص ہوتے ہیں، انہیں اپنا کام کرنے دیجئے، قصّاب(Butcher) کی دُکان پر جاکر اسے گوشت کاٹنے کے طریقے سمجھانا اوربس ڈرائیور کو ڈرائیونگ سکھانا شروع نہ کردیں بلکہ اس بات کو پیشِ نظر رکھیں: ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ (8) بڑی رقم یا قیمتی چیزکہیں لے کر جارہے ہوں تو بار بار جیب یا بیگ پر ہاتھ رکھ کر اسے چیک نہ کریں ورنہ جس ’’چور یا ڈکیت‘‘ سے آپ بچنا چاہ رہے ہیں وہ آپ کے انداز کی وجہ سے سمجھ جائے گا کہ اس کے پاس ’’مال‘‘ موجود ہے (9) کسی کو افسوس ناک خبر یک دم (Suddenly) نہ دیجئے کہ ’’تمہاری دکان آگ میں جل گئی‘‘،’’تمہارے جوان بیٹے کا انتقال ہوگیا ‘‘ وغیرہ بلکہ پہلے مناسب تمہید قائم کریں، جیسا کہ حضرت اُمِّ سُلیمرضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کو بیٹےکی موت کی خبر اس انداز میں دی کہ پہلے ان سے سوال کیا: اے میرے پیارے شوہر! مجھے بتایئے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو کیا ہم کو بُرا ماننے یا ناراض ہونے کا کوئی حق ہے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں!امانت والے کو اس کی امانت راضی خوشی دے دینی چاہئے۔شوہر کایہ جواب سُن کر حضرت اُمِّ سُلیم رضی اللہ عنہا نےبتایا: میرے سرتاج! آج ہمارے گھر میں یہی معامَلہ پیش آیا کہ ہمارا بچّہ جو ہمارے پاس خدا کی ایک امانت تھا، آج خدا نے وہ امانت واپس لے لی، ہمارا بچّہ فوت ہوگیا۔ (عیون الحکایات،ص60ملخصاً) (10) بریک فیل ہوجائے یا گاڑی کا ٹائر پھٹ جائے تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے اَعصاب(Nerves) قابو میں رکھیں اور بدحواس نہ ہوں،کہتے ہیں کہ ٹائرپھٹنے کی صورت میں گھبرا کر فوراً بریک نہیں لگانی چاہئے، ورنہ گاڑی اُلٹ سکتی ہے،وَاللہُ اَعْلَمُ (11)اگر کسی کو اُلٹے سیدھے نام سے پُکارا جائے مثلاً ’’آلو!‘‘ ،’’بھالُو!‘‘، ’’ریچھ!‘‘ تو اگرچہ یہ سخت دل آزار اور حرام ہے لیکن اگر وہ آئندہ کے لئےپریشانی سے بچنا چاہتا ہے تو چِڑے نہیں اور مشتعِل نہ ہو ورنہ پُکارنے والے بالخُصوص اِسےٹارگٹ بنالیں گے، ہاں! ایسا کرنے والوں کو نرمی سے سمجھانا بھی مفید ہے (12)کسی محفل میں جائیں تو پہلی قطار (Row) کی نشستوں (Seats) پر بیٹھنے سے گریز کریں کیونکہ جگہ نہ ہونے کی صورت میں آپ سے بھی اہم شخص آنے پر آپ کو (ادباً یا مُروّتاً) نشست خالی کرنا پڑسکتی ہے پھر آپ کو دوسری تیسری نہیں بلکہ آخری قطارمیں جگہ ملے گی، اس لئے دوسری یا تیسری قطار میں بیٹھنے میں عافیت اور عزّت کا تحفّظ ہے (13)کوئی جانوریا پرندہ مثلاً کُتّا،شہد کی مکھّی،بِھڑ، یا چیل پیچھے پڑجائے تو جانور کے مزاج کے مطابق حکمتِ عملی (Strategy) اپنائیے کیونکہ بعض جانورایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے رُک جائیں تو پیچھا چھوڑ دیتے ہیں ، بعض کے سامنے نارمل رفتار سے چلتے جائیں تو وہ پیچھے نہیں آتے، شہد کی مکھّی کے سامنے اُلٹے سیدھے ہاتھ چلائیں گے تومشاہدہ (Observation)ہے کہ وہ آپ پر اور شدّت سے حملہ کرے گی۔ کس جانور یا پرندے یا کیڑے کے سامنے کیا ردِّ عمل (Reaction) کرناہوتا ہے، اس کے لئے دُرست معلومات ہوناضروری ہے ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں مثلاً کُتّا پیچھے پڑے تو لوگ گھبرا کر دوڑ لگا دیتے ہیں لیکن کتّا بھی ان کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے پھروہ کسی چیز سے ٹکرا کرگِر جاتے ہیں اور کتّے کے قابو میں آجاتے ہیں ، الغرض ہر کتّے کے سامنے بھاگنا مُفید نہیں بلکہ بعضوں کے سامنے رُک جانا فائدہ مند ہوتا ہے بعضوں کے سامنے نارمل رفتار سے ان کو لِفٹ کرائے بغیر چلتے رہنے سے انسان ان کی رینج سے باہر نکل آتا ہے اور اگر کتّا آوارہ اور پاگل ہو تو ہر صورت اس کی رینج (پہنچ )سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ زندگی سے بھی ہاتھ دھوسکتے ہیں، الغرض جیسا جانور ویسی حکمت عملی! (14)ہجوم (Crowd) میں پھنس جائیں تو دوسروں کو دھکّے دے کر جگہ بنانے کی کوشش آپ کو تھکا دے گی اور دوسروں کو تکلیف بھی ہو گی جیسے جیسے جگہ بنتی جائے آگے بڑھتے جائیں گے تو ہجوم سے نکلنے میں زیادہ مشقّت نہیں اُٹھانی پڑے گی (15)اسی طرح اگر رَش والی جگہ پر کہیں بھگدڑ مچ جائے تو آپ بَدحواس ہو کر ان کے ساتھ نہ بھاگیں بلکہ نارمل چلتے ہوئے کسی ستون یا گاڑی یا عمارت کی آڑ میں رُک جائیں یا کسی اونچی جگہ چبوترے وغیرہ پر چڑھ جائیں، جب حالات نارمل ہوجائیں تو وہاں سے فوراً نکل جائیں (16)بعض والدین اور بڑے بوڑھے کیفیت دیکھتے ہیں نہ وقت ! بچّوں کو وقت بے وقت لیکچر دیتے رہتے ہیں ،ایسا نہ کیجئے ورنہ بچّے بور (Bore) ہوجائیں گے اور آپ کی بات پر توجّہ نہیں دیں گے ، ایک تحقیق کے مطابق کم از کم پانچ اوقات ایسے ہیں جب بچّہ بات کو قبول کرنے کے مُوڈ(Receptive Mood) میں ہوتا ہے: (۱)جب بچّہ رات کو سونے لگے اس وقت بچّہ learning Mood میں ہوتا ہے،اسی لئے کئی بچّے سوتے وقت کہانی سنانے کی فرمائش کرتے ہیں، اس وقت انہیں سبق آموز کہانی سنائی جائے تو وہ اس سبق کو لمبے عرصے تک یاد رکھیں گے([1])(۲) جب بچّہ آپ کے ساتھ گاڑی یا بس میں بیٹھا ہو،اسی لئےاس وقت بچّہ مختلف سوالات پوچھ رہا ہوتا ہے،اس وقت اگر ہم اسے جھاڑ کر چُپ کروادیں گے یا اپنے موبائل میں لگے رہیں گے تو ہم یہ چانس گنوا بیٹھیں گے (۳)کھانے کے دستر خوان پر بھی بچّے کو حسبِ موقع اچّھی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں (۴)جب بچّہ بخار وغیرہ کی وجہ سے بستر پر ہو اس وقت بھی learning mood میں ہوتا ہے اس وقت آپ جو بھی نصیحت کریں گے وہ بچےکے دل میں نقش ہو جائے گی (۵)اسی طرح کسی دفتر یا بس اسٹینڈ یا ریلوے یا ائیرپورٹ کی انتظار گاہ (Waiting Room) میں بھی بہت سی باتیں سکھائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں (17)ہمارے ہاں کسی ادارے، اسکول یا جامعہ (University) وغیرہ میں انتظامی معاملات میں کوئی گڑبڑ ہوجائے، پانی ختم ہوجائے یا بجلی چلی جائے وغیرہ تو شکایت کاعمومی انداز یہ ہوتا ہے کہ پہلے تکلیف دِہ انداز میں تنقید کرکے متعلّقہ ذمّہ دار (Administrator) کو نااہل اور نکمّا ثابت کیا جاتا ہے، پھر اس سے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، آپ ہی بتائیے کہ کیا وہ افسردہ ہوگا یا خوشی کے مارے جُھومے گا اور آپ کا مسئلہ چُٹکی بجا کرحل کردے گا بلکہ اگر وہ ضِد میں آگیا تو آپ کی شکایت دور ہونے میں غیر معمولی تاخیر بھی ہوسکتی ہے ۔بہرحال اس کا طریقہ یوں بھی تو ہوسکتا ہے کہ پہلے اس کی کسی اچّھی کارکردگی پرحوصلہ افزائی کی جائے پھر نرم الفاظ میں مسئلہ بتا کرعاجزانہ لہجے میں اسے حل کرنے کی درخواست کی جائے ۔
اے عاشقانِ رسول!یاد رہے جو کچھ بیان ہوا یہ فارمولے نہیں بلکہ مشورے ہیں ،ان پر عمل آپ نے اپنی فہم و دانائی اور معلومات کی بنیاد پر کرنا ہے۔بہرحال آپ اسی طرح غور کرتے چلے جائیں کہ جو مسئلہ روایتی طریقے سے حل نہ ہو پائے اسے نئے مختلف اندازاور حکمتِ عَمِلی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ امام غَزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: جو شخص چالیس دن لگاتار حلال کی روزی کماتا ہے اور حرام کے لُقمہ کی آمیزش نہیں ہونے دیتا اللہ پاک اس کے دل کو اپنے نُور سے روشن کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے دل سے جاری ہوجاتے ہیں۔(کیمیائے سعادت،ج 1،ص344)
الہٰی! اپنی رحمت سے تُو حکمت کا خزینہ دے
ہمیں عقلِ سلیم مولیٰ! پئے شاہِ مدینہ دے
اللہ پاک ہمارا حامی وناصر ہو ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…محمد آصف عطاری مدنی
٭…چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضان مدینہ
[1] اس حوالے سے امیراہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسائل ”بیٹا ہوتو ایسا، فرعون کا خواب، جھوٹاچور، نور کا کھلونا“ مفید ہیں نیز ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں بھی ہر ماہ بچّوں کے صفحات میں ایسی کئی سبق آموز اور دِلچسپ کہانیاں چھپتی ہیں،وہ بھی سُنائی جاسکتی ہیں۔
Comments