فاروقِ اعظم کے بھائی: جلیلُ القدْر صحابیِ رسول حضرت سیّدنا زید بن خطاب رضیَ اللہ عنہ،امیر المؤمنین حضرتِ
سَیِّدُنا عمر فاروق ِ اعظم رضیَ اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔حضرت زیدبن خطاب رضیَ اللہ عنہ حضرت فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ سےنہ صِرف عمر میں بڑے تھے بلکہ دینِ اسلام بھی پہلے قبول کیا
تھا، آپ رضیَ
اللہ عنہ تقویٰ
وپرہیزگاری کے پیکر اور اَوَّلِین مُہاجِرین میں سے ہیں۔(اسد الغابہ،ج2،ص341)
آپ رضیَ اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد الرّحمٰن یا ابو ثَورتھی جبکہ
سانولی رنگت اور کافی لمبے قد کے مالک تھے۔(معرفۃ الصحابہ،ج2،ص325، طبقات
ابن سعد،ج3،ص288) بعض عُلَما کے مطابِق آپ رضیَ اللہ عنہ اصحابِِ صُفّہ میں بھی شامل تھے۔ (مستدرک،ج3،ص555،حلیۃ
الاولیاء،ج1،ص449) 20 کے قریب مسلمانوں نے حضرت سیّدناعمر فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ کے ساتھ مکّے سے مدینے کی طرف
ہجرت کی ،ان میں آپ رضیَ اللہ عنہ بھی شامل تھے۔(فتح الباری،ج 8،ص222،تحت
الحدیث:3925)
اولاد کی تعداد:آپ رضیَ
اللہ عنہ کے دو
بچےّ تھے ،بیٹے کا نام عبد الرّحمٰن جبکہ
بیٹی کا اَسْمَاء تھا۔(البدایہ والنھایہ،ج5،ص43)
مُجاہِدانہ زندگی:غزوہ بدر کا ہو یا اُحُد کا،مَعرِکہ خَندق کا ہو یا خیبر کا ، مَوقع
صُلْح حُدَیبیہ اور بیعت ِرضوان کا ہو یا فتحِ مکّہ کا، آپ رضیَ اللہ عنہ ہر جنگ اور غزوہ میں رسولُ اللہ
صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے ساتھ شریک رہے۔ (استیعاب،ج2،ص120)
شوقِ شہادت:غزوۂ
اُحُد میں حضرتِ سَیِّدُناعمر فاروق رضیَ اللہ عنہ نے اپنے بھائی زید بن خطّاب رضیَ اللہ عنہ سے فرمایا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں
کہ میری زِرَہ (یعنی لوہے کے جنگی لباس ) کو پہن لو، حضرت زید رضیَ اللہ عنہ نے زرہ پہن لی پھر اسے اتاردیا، حضرت سیّدنا عمرفاروق رضیَ
اللہ عنہ نے پوچھا
: اب کیا ہوا؟ عرض کی : آپ اپنے لئے مرتبہ ٔ شہادت پسند کرتے ہیں تو مجھے بھی
رتبۂ شہادت پالینے کا شوق ہے۔ (طَبَقَاتِ اِبْنِ سَعْد،ج3،ص289)
امیرِ لشکر:مُنکِرینِ زکوٰۃ سے جہاد کے مَوقَع پر خلیفۂ اوّل حضرت
سیّدنا ابوبکر صدّیق رضیَ
اللہ عنہ نے آپ کو
لشکر ِاسلام کا امیر مُقرَّر کرنا چاہا توآپ نے مَعذِرَت کرلی اور عرض کی : میں
دورِ رِسالت میں بھی شہادت کا مُتَلَاشی اور اُمّید وار تھا لیکن شہادت سے سرفراز نہ ہوسکا اور اب بھی شہادت کا طلبگار ہوں لہٰذا لشکر کا
سپہ سالار نہیں بن سکتا کیونکہ سپہ سالار کے لئے مناسِب نہیں ہوتا ہےکہ آگے بڑھ کرخود لڑے (اس
لئے کہ اسے لشکر کی کمان سنبھالنی ہوتی ہے) (الاکتفاء،ج 2،ص96) البتّہ سِن 12 ہجری میں نَبُوَّت کے ایک جھوٹے دعویدار (طُلَیْحَہ
بن خُوَیْلَد جس نے بعد میں توبہ کرلی تھی )کے
خلاف جنگ میں آپ رضیَ اللہ عنہ لشکرِ اسلام کے اگلے حصّے پر 200 سواروں کے نگران مقرَّر
تھے۔ (طبقات
ابن سعد،ج 3،ص68)
میدانِ جنگ میں نیکی کی دعوت: امیر
المؤمنین حضرتِ سَیِّدُناابو بکر صدّیق رضیَ اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہی نَبُوَّت کے ایک اورجھوٹے
دعویدارمُسَیْلِمہ کذّاب کے خلاف اسلامی
لشکر روانہ ہونے لگا تو حضرت سیّدنا عمرفاروق رضیَ اللہ عنہ نے آپ رضیَ اللہ عنہ کو اَلْوَداع کہا، اس مَعرِکہ ٔ یمامہ میں آپ رضیَ اللہ عنہ نے بہادری اور ہمت کا وہ پُرجوش مُظَاہَرہ کیا جسے ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا،اس جنگ میں لشکرِ اسلام کا جھنڈاآپ رضیَ اللہ عنہ نے تھام رکھا تھا، جنگ زور و شور
سے جاری تھی کہ اس دوران مُسَیلِمہ کذّاب
کے ایک خاص آدمی رَجَّال بن عُنْفُوہ مُرتَد سے سامنا ہوا تو آپ رضیَ اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:خدا کی قسم!تُو
دینِ اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوچکا ہے مگر میں تجھے دینِ اسلام کی دعوت دیتا ہوں کہ تیرے لئے اسی میں عزّت و شرافت ہے اور تیرا مال و دولت بھی زیادہ ہوجائے
گا مگر اس بدبخت نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا بالآخِر اس کی موت آپ رضیَ اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوئی۔ (تاریخ طبری،ج2،ص289،
291،البدایہ والنھایہ،ج 5،ص43 مفہوماً)
ہمت وبہادری: اس جنگ میں دشمن کی فوج غالب آنے لگی اور مسلمان پسپا ہونے لگے مگر حضرت سیّدنا زید بن خطاب رضیَ اللہ عنہ ثابت قدم رہے۔(مستدرک،ج 4،ص244، رقم: 5056)
ایک روایت میں ہے کہ یوں
فرمایا: اے لوگو! مضبوط رہو اور دشمنوں پر ٹُوٹ پڑو اور قدموں کو آگے بڑھاتے رہو،
پھر فرمایا:خدا کی قسم ! میں اب کوئی بات نہیں کروں گا یہاں تک کہ کُفّار کو شکست فاش ہوجائے گی یامیں شہادت
پالوں گا اور اپنے پاک رَبّ کی بارگاہ میں سرخرو ہوکر حاضری دوں گا۔ (البدایہ والنھایہ،ج5،ص30)
اس کے بعد جھنڈے
پر اپنی گرفت مضبوط کی پھر دشمن کی جو صف سامنے نظر آئی اس میں گُھس کر دشمنوں سے
لڑنا شروع کردیا۔ آخر کار مسلمان جانبازوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے
مُسَیلِمہ کذّاب کے لشکر کو شِکَستِ فاش
دی ۔ایک قول کے مطابق مُسیلِمہ کذّاب کو جہنم واصل کرنے والے مسلمانوں میں حضرت
سیّدنا زید بن خطّاب رضیَ
اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ (مستدرک،ج 4،ص245، رقم: 5057)
تمغۂ شہادت:یہ
جنگ امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر صدّیق رضیَ اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سِن 12 ہجری ربیعُ الاوّل میں ہوئی ،جس میں 1200 مسلمان
شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں 700 حافظِ قراٰن و قاری صحابہ بھی تھے۔ (معرفۃ الصحابہ،ج2،ص325مراٰۃ
المناجیح،ج 3،ص283)
ہجرت کے بعد نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے حضرت سیّدنا زید بن خطّاب اور
حضرت سیّدنا مَعْن بن عَدِی رضیَ اللہ عنہُما کے درمیان مُوَاخات قائم فرمائی تھی (یعنی انہیں بھائی بھائی بنایا تھا)، ان
دونوں حضرات نے ایک ہی دن اسی جنگ میں شہادت پائی۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص354)
دو باتوں میں آگے:حضرت سیّدنا زید رضیَ
اللہ عنہ کی شہادت
کی خبر سُن کر حضرتِ سَیِّدُنا
عمرفاروق رضیَ
اللہ عنہ پر رِقّت طاری ہوگئی تھی (استیعاب،ج 2،ص120)اور فرمایا: اللہ میرے بھائی پر رحم کرے! دو اچّھی باتوں میں وہ مجھ سے آگے بڑھ گئے،ایک یہ
کہ مجھ سے پہلے اسلام لائے، دوسری یہ کہ
مجھ سے پہلے شہید ہوگئے۔(تہذیب الاسماء،ج1،ص200)
حضرت زید کی خوشبو:حضرتِ سَیِّدُنا عمرفاروق رضیَ اللہ عنہ کو اپنے بھائی حضرت زیدبن خطاب رضیَ اللہ عنہ سے بے
پناہ مَحَبَّت تھی اور ان کی یاد دل سے نہیں جاتی تھی، خود فرماتے ہیں کہ جب بھی
ہوا چلتی ہے تو میں زید کی خوشبو اس سے پاتا ہوں(طبقات ابن سعد،ج3،ص289) ایک روایت میں آپ کا فرمان اس طرح ہے کہ جب بھی ہوا چلتی ہے تو وہ زید بن خطاب کی یاد تازہ کردیتی ہے۔(البدایہ والنھایہ،ج5،ص43)
مزار پُرانوار:عَرَب شریف کے شہرریاض کے شمِال میں جُبَیْلہ نامی بستی کے قریب ہی آپ رضیَ اللہ عنہ کا مزار ِپُرانوار ہے۔
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان
کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…عدنان احمد عطاری مدنی
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ،عالمی مدنی فیضان ِمدینہ کراچی
Comments