قصیدہ بردہ شریف کب اور کیسے لکھا گیا ؟

پیارے اسلامی بھائیو!اَشعار کی صُورت میں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَدْح و ثَنا کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ صَحابَۂ کِرام علیہمُ الرِّضوان، تابِعِین، تَبع تابِعِین، عُلَمائے کامِلِین اور مُحَدِّثِین رحمۃ اللہ علیھم اجمعین اور دیگرعاشقانِ رسول  ہر دَور میں محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح و ثنا میں مصروف  رہے ہیں۔

سدا بہار کلام: یوں تو ہر دَور میں سیِّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف و توصیف میں دنیا کی مختلف زبانوں میں  بے شمار کلام لکھے گئے لیکن  چند کلام ایسے ہیں کہ وقت گزرتا رہا مگر ان کی مقبولیت اور شہرت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہی میں سے ایک ”قَصِیدۂ بُردَہ“ ہے جو سدا بہار اور تقریباً 750سال سے مقبولِ خاص و عام ہے،اس قصیدے کا اصل نام ”اَلْكَوَاكِبُ الدُّرِّيَّة فِي مَدْحِ خَيْرِ الْبَرِيَّة“ہے۔

قَصِیدَہ بُردَہ شریف کس نے لکھا؟ اس مبارَک قصیدے کو لکھنے کی سعادت حضرت سیِّدُنا امام شَرَفُ الدّین محمدبُوصِیری (وفات:696ھ) رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہوئی۔ آپ اپنے زمانے کے ممتاز عالِم تھے جبکہ فَصاحَت و بَلاغَت میں تو آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔

خواب میں زیارت:ایک بار آپ کہیں  سے واپس گھر تشریف لارہے تھے  ۔جب اپنی گلی میں داخل ہوئے تو ایک بُزرگ سے سامنا ہوا جنہوں نے پوچھا :کیا آپ نے گزشتہ رات خواب میں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی ہے؟ امام بُوصِیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے اس رات زیارت نہیں کی تھی لیکن  بزرگ کی یہ بات سُن کر میرا دل اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحبَّت اور عِشق سے سَرشار ہوگیا۔ گھر پہنچ کر جب میں سویا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صَحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے درمیان اس طرح موجو د ہیں جس طرح ستاروں کے جُھرمٹ میں چاند جگمگا تا ہے۔ جب میں بیدار  ہوا تو میرا دل محبت اور خوشی سے  لبریز تھا  اور اس کے بعد میں نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح و ثنا میں کئی قصیدے لکھے۔

فالج دُور ہوگیا: امام بُوصِیری رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: (کچھ عرصے بعد) مجھ پر فالج کا حملہ ہوا اور میرے جسم کا نِصف حصّہ مَفلُوج ہونے کے باعث میں چلنے پھرنے سے عاجز ہوگیا۔ میں نے اس حالت میں سوچا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف میں ایک قَصِیدَہ مُرتَّب کروں اور اس کے وسیلے سے اللہ پاک سے شفا طلب کروں، چنانچہ میں نے ایک قصیدہ تیار کیا۔ جب میں سویا تو خواب میں محمدِ عَرَبی، مکی مدنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت ہوئی، میں نے پورا قصیدہ پڑھ کر سنایا۔ (قصیدہ سُن کر) سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے جسم پر اپنا مبارَک ہاتھ پھیرا اور اپنی مبارک چادر مجھے اَوڑھا دی،جب میں نیند سے بیدار ہوا تو میرے جسم کا فالِج دُور ہوچکا تھا۔(عصیدۃ الشھدۃ ، ص37، 39مفہوماً)

شعر مکمل فرمایا: شارحِ قصیدۂ بُردہ شریف علّامہ سیِّد عمر بن احمد آفندی حَنَفی رحمۃ اللہ علیہنقل فرماتے ہیں:حضرت سیِّدُنا امام بُوصِیریرحمۃ اللہ علیہ نے جب خواب میں رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنا مُرَتَّب کردہ قصیدہ سنایا تو یہ مِصرع سنا کر رُک گئے: فَمَبْلَغُ الْعِلْمِ فِیْہِ اَنَّہُ بَشَرٌ اِرشاد ہوا:(آگے)پڑھو۔ عرض کی:یَارسولَ اللہ ! مجھے اس شعر کا دوسرا مِصرع نہیں مل سکا۔سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوسرا مِصرع سِکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے امام ! کہو: وَاَنَّہُ خَیْرُ خَلْقِ اللہِ کُلِّہِمِ (عصیدۃ الشھدۃ ،ص39) ان دونوں مِصرعوں کا تَرجَمہ یہ ہے:سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں ہمارے عِلم کی انتہا یہ ہے کہ آپ بَشَر (یعنی انسان) ہیں اور اللہ  پاک کی تمام مخلوق سے افضل ہیں۔

قصیدۂ بُردہ شریف سننے کی برکت: امام بُوصِیری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بادشاہ کے ایک وزیر جن کا نام بہاؤُ الدّین تھا، انہوں نے قصیدۂ بُردہ شریف کی نقل (copy) حاصل کی اور یہ عہد کیا کہ اس قصیدۂ مبارَکہ کو روزانہ ننگے سَر اور ننگے پاؤں کھڑاہوکرسُنوں گا۔ اس انداز میں قصیدۂ بُر دہ سننے کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ ان کے دِین و دنیا کے بہت سے کام پورے ہوئے اور مصیبتیں دُور ہو گئیں۔ (طیب الوردہ،ص23)

قصیدۂ بُردہ شریف کی مقبولیت: اے عاشقانِ رسول! کسی کتاب یا کلام کی مقبولیت کی ایک دلیل اہلِ علم کا اسے ہاتھوں ہاتھ لینا اور اہمیت دینا بھی ہے۔قصیدۂ بُردہ شریف کی  عالمگیر مقبولیت اور شہرت کا عالَم یہ ہے کہ دنیا کی کثیر زبانوں میں اس کے ترجمے اور شُروحات  موجود ہیں ۔بعض عاشقانِ رسول نے تو اس کا مکمل یا جُزوی ترجمہ مَنظُوم (یعنی اشعار کی صورت ) میں بھی کیا ہے۔ مُتَعَدَّد عُلَما اور شُعَرا نے اس مبارَک قصیدے پر تَخْمِیس، تَسْبِیع، تَشْطِیر، تَذْئِیل اور تَضْمِین([1]) لکھی ہیں۔ ایک عالِم صاحب کا بیان ہے کہ میں نے قَصِیدۂ بُردہ پر لکھی گئی 35تَخْمِیسات دیکھی ہیں۔(کشف الظنون،ج2،ص1331،طیب الوردہ،ص10)

قصیدۂ بُردہ  کی شُروحات: کثیر علمائے کرام نے قَصیدۂ بُردہ کی شُروحات تحریر فرمائی ہیں یہاں تک کہ بعض عُلَما نے اس کی دو دو شروحات لکھیں،ایک مختصر دوسری تفصیلی۔ ایک عالِم صاحب نے قصیدۂ بُردہ شریف کی ایک شرح عَرَبی اور دوسری تُرکی زبان میں تحریر فرمائی۔ امام جلالُ الدّين  محمد بن احمد مَحَلّي شافِعِی، شارِح بخاری امام احمد بن محمد قَسطَلانی اور علّامہ نورُ الدّین علی بن سلطان قاری رحمۃ اللہ علیہم جیسی مشہور علمی شخصیات نے بھی قصیدۂ بُردہ کی شروحات لکھی ہیں۔ (کشف الظنون،ج2،ص1332)

قصیدۂ بُردہ شریف کی ایک شرح ”عَصِیْدَۃُ الشُّہْدَۃ“ کے نام سے مفتیِ مدینہ حضرت علّامہ سیِّد عمر بن احمد آفندی حَنَفی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمائی جسے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارےمکتبۃُ المدینہ نے  سے شائع کیا ہے۔

بیماریوں  کاعلاج:اے عاشقانِ رسول !ادب و تعظیم کے ساتھ قصیدۂ بُردہ شریف پڑھنا نہ صرف اَجر و ثواب کے حُصول کا باعث ہے بلکہ اس کی بدولت کئی دُنیوی  آفات اور بیماریاں دُور ہوتی اور جائز مقاصد پورے ہوتے  ہیں۔بُزرگانِ دِین نے قصیدۂ بُردہ کی ایسی  کثیر برکات کا ذِکر فرمایا ہے، مثلاً زبان میں لُکْنَت اوردَمَہ کا علاج، آسیب سے شِفایابی وغیرہ تفصیل جاننے کے لئے22صفحا ت پر مشتمل مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ رِسالہ ”قصیدۂ بُردہ سے رُوحانی علاج“ ملاحظہ فرمائیے۔

فیضانِ قَصیدۂ بُردہ کی ایک جھلک: پیارے اسلامی بھائیو! بارگاہِ رسالت مآب میں مقبول  اس مبارک قصیدے کے فضائل  اور خوبیوں کو ایک مختصر مضمون میں بیان کرنا دُشوار ہے۔ بہرحال! قصیدۂ بُردہ شریف ایک قول کے مطابق 161 اَشعار پر مشتمل ہے اور ہر شعر اپنی مثال آپ ہے، نَمونے کے طور پر قصیدۂ بُردہ شریف کے تین اَشعار او ر ان کا تَرجَمہ ملاحظہ فرمائیے :

(1) دَعْ مَا ادَّعَتْہُ  النَّصَارٰی  فِی  نَبِیِّھِم

وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحاً  فِیْہِ وَاحْتَکِمِ

(2) فَانْسُبْ اِلٰی ذَاتِہِ مَا شِئْتَ مِنْ شَرَفٍ

وَانْسُبْ عَلٰی قَدْرِہِ مَا شِئْتَ مِنْ عِظَمِ

(3) فَاِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ  اللہِ  لَیْسَ لَہُ

حَدٌّ فَیُعْرِبُ عَنْہُ نَاطِقٌ بِفَمِ

یعنی عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کے بارے میں جو دعویٰ کیا تھا (یعنی انہیں خدا یا خدا کا بیٹا کہا تھا) اسے چھوڑ دو اور اس کے علاوہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف میں جو چاہو کہو۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک ذات کی طرف جو شَرَف چاہو منسوب کرو اور آپ کی قدر و عظمت کو  جس قدر چاہو بلند و بالا کہو کیونکہ آپ  کی فضیلت کی ایسی کوئی حد نہیں ہے جسے انسان بیان کرسکے۔([2])

اللہ کریم  ہمیں ادب و احترام کے ساتھ قصیدۂ بُردہ شریف پڑھنے،سمجھنے اور اس کی برکتیں پانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ابو الحسان عطاری مدنی

                  ٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



1    تَخْمِیس، تَسْبِیع، تَشْطِیر، تَذْئِیل اور تَضْمِین علمِ شاعری کی اصطلاحات ہیں۔ قصیدے کے ہر شعر کے بعد ہم قافیہ و ہم رَدِیف تین مِصرعوں کا اضافہ کرنا تَخْمِیس جبکہ  پانچ مصرعوں کااضافہ کرنا تَسبِیع کہلاتا ہے۔ ہر شعر کےدرمیان دو مصرعوں کااضافہ کرنے کو تَشطِیر جبکہ ہر شعر کے نیچے چند مصرعوں کااضافہ کرنے کو تَذئِیل    کہتے ہیں۔

2     امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بیشک سِوا اُلُوہِیَّت و مُسْتَلْزَمَاتِ الوہیت کے (یعنی خدا ہونے اور خدا کے لئے جو باتیں لازم ہیں ان کے علاوہ) سب فضائل وکمالات حضور(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے لئے ثابت ہیں۔(فتاویٰ رضویہ،ج14،ص686)


Share

Articles

Comments


Security Code