حضرتِ سیدتنا جُوَیرِیہ رضی اللہ عنھا

وہ خوش نصیب خواتین جِن کو سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے شرفِ زوجیت حاصل ہے اُن میں سے ایک حضرت سیّدتُنا جُوَیرِیہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔

ولادت:اعلانِ نبوت سے تقریباً دو سال پہلے 608عیسوی میں آپ کی ولادت ہوئی۔(فیضانِ امہاتُ المؤمِنین،ص245ملخصاً)

نام و خاندان:آپ رضی اللہ عنہا کا نام پہلے ”برَّہ“ تھا۔ سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبدیل کرکے جُوَیْرِیَہ رکھا۔ (مسلم، ص 911، حدیث:5606) والد کا نام حارث اور آپ رضی اللہ عنہا  قبیلۂ بنی مُصطَلق سے تعلق رکھتی تھیں۔(طبقات ابن سعد،ج 8،ص92ماخوذاً)

مُبارک خواب:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ نکاح سے چند روز پہلے آپ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا جس کے متعلق آپ خود ارشاد فرماتی ہیں:گویا کہ ایک چاند مدینۂ منوّرہ زادہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً سے چلتا ہوا آرہا ہے حتّٰی کہ میری گود میں آ گیا۔ جب مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری ہوئی اور ہم قیدی ہوگئے تو مجھے اپنا خواب پورا ہونے کی اُمید ہو گئی۔(مستدرک للحاکم،ج 5،ص35، حدیث: 6859ماخوذاً)

چنانچہ غزوۂ مُرَیسِیع (یعنی غزوۂ بنی مصطلق) کے بعد  جب آپ دیگر قیدیوں کے ساتھ مسلمانوں کی قید میں آئیں تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں بدلِ کتابت([1]) اداکرنے اور نکاح کرنے کی پیشکش فرمائی، آپ رضی اللہ عنہا نے بخوشی قبول کرلیا اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں آگئیں۔(فیضان امہاتُ المؤمنین، ص236 ملخصاً)

حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حضرتِ جُوَیْرِیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نِکاح فرمانے کی خبر جب صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو پہنچی تو انہیں یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ جس قبیلے میں سردارِ دو جہان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نِکاح فرمائیں اس قبیلے کا کوئی فرد ان کی غُلامی میں رہے چنانچہ ان کے پاس جتنے لونڈی غُلام تھے سب کو یہ کہہ کر آزاد کردیا کہ یہ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَصہَار (یعنی سسرالی رشتے دار) ہیں۔(ابو داؤد،ج 4،ص30، حدیث:3931)

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا اسے بہت زیادہ خیر وبَرَکَت والا نِکاح قرار دیتے ہوئے فرماتی ہیں:   فَمَا رَاَیْنَا اِمْرَاَۃً کَانَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا یعنی اپنی قوم پر خیر و بَرَکَت لانے والی کوئی عورت ہم نے حضرتِ جُوَیْرِیہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر نہیں دیکھی۔(ابو داؤد،ج 4،ص30، حدیث:3931)

خدمتِ حدیث:آپ رضی اللہ عنہا سے مروی احادیث کی تعداد سات ہے جن میں سے ایک صحیح بُخاری شریف میں، دوصحیح مسلم شریف میں اور بقیہ احادیث کی دوسری کُتُب میں ہیں۔(سیر اعلام النبلاء،ج3،ص511)

ذوقِ عبادت:ایک بار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فجر کی نماز کے بعد حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے حُجرے میں تشریف لے گئے یہ اُس وقت اپنی سجدہ گاہ (مسجدِ بیت) میں تھیں پھر چاشت کے وقت دوبارہ تشریف لائے تویہ اب بھی اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِستفسار فرمایا:تم اُس وقت سے یہیں بیٹھی ہو؟عرض کی: جی ہاں۔(مسلم، ص1119، حدیث:6913)

وِصال و مدفن:حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری پردہ فرمانے کے کم و بیش 40 سال بعد ربیعُ الاوّل50 ہجری میں 65برس کی عمر میں وصال فرمایااور جنّت ُالبقیع میں دفن کی گئیں۔(زرقانی علی المواھب،ج4،ص428مُلَخَّصاً)

اللہ کریم کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کےصدقے ہماری بے حساب بخشش ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…بنت سعید عطاریہ مدنیہ   



[1]                 بدلِ کتابت اُس مال کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی کے عوض غلام یالونڈی نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کامعاہدہ کیا ہو۔(حاشیہ بہار شریعت،ج2 ،ص212)


Share

Articles

Comments


Security Code