ٹیکس بچانے کے لئے کم بل بنانا کیسا؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خریدار نے ہم سے
جتنے کی چیز خریدی ہے وہ اس سے کم کا بل
بنواتا ہے تاکہ اس کو زیادہ ٹیکس نہ دینا
پڑے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ اس طرح کم بل بنا کر دینا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
جواب: بل پر جو رقم آپ لکھ رہے ہیں وہ خلافِ واقع ہے مثلاً ایک ڈیل ہوئی دس ہزار روپے کی اور آپ نے لکھی پانچ ہزار
روپے کی ،تو یہاں جھوٹ لکھنا پایا جارہا
ہے جو کہ بلا اجازت شرعی گناہ کا کام ہے ۔ لہٰذا جھوٹ لکھنے اور اس طرح
غیر قانونی کام کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دوسری شادی کی صورت میں جرمانے کی شرط لگانا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نکاح فارم میں
یہ شرط لگانا کیسا ہے کہ اگر شوہر نے طلاق دی یا دوسری شادی کی تو دو لاکھ روپے کی
رقم دینی پڑے گی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
جواب: یہ صورت تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانے میں آتی ہے یوں لکھوانا جائز
نہیں ہے۔ البتہ اس طرح کی رقم مہر کے طور پر لکھوائی جاسکتی ہے ، نکاح نامہ میں مہر کا کالم موجود ہوتا ہے اور مہر ہمارے یہاں
دوطرح سے لکھا جاتا ہے ایک یہ ہوتا ہے کہ فوری دیا جائے اور ایک وہ ہوتاہے جو فوری
نہیں دیا جاتا بلکہ طلاق ہوجائے یا شوہر کی وفات ہوجائے تو ترکے سے دیاجاتا ہے۔ دونوں
صورتوں میں سے کسی بھی قسم میں مہر کےطور پر لکھوایا جا سکتا ہے کہ شوہر نے بیوی
کے لئے اتنا مہر مقرر کیا ہے مہر چاہے کتنا ہی مقرر کرلیں کوئی منع نہیں ہے قرآنِ
پاک کی واضح آیت موجود ہےلیکن الگ سے لکھوانا کہ اگر طلاق دے دی تو اتنے پیسے اور
دینے پڑیں گے یہ جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پرندوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ
کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا پرندوں کا
کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہے مثلا ایک اچھی نسل کے طوطے کے بدلے میں
زیادہ تعداد میں کبوتر دینا جائز ہےیا نہیں ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
جواب: ایک اچھی نسل کے طوطے یا کسی اور پرندے کو دوسرے کئی پرندوں کے بدلے
میں بیچنا جائز ہے کیونکہ پرندوں کوناپ یا تول کر نہیں بلکہ تعداد کے اعتبار
سے خریدا اور بیچا جاتا ہے اور عددی ہونے سے سود پائے جانے کی ایک علت ختم ہو جاتی
ہے۔البتہ اگر ایک ہی جنس کے پرندوں کو کمی بیشی سے خریدا یا بیچا جائے تو ادھار
کرنے کی اجازت نہیں۔
حضرت سیدناجابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمصلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :”الحيوان
اثنان بواحد لا يصلح نسيئا، ولا بأس به يدا بيد“ ترجمہ : ایک جانور کو دو کے بدلے میں ادھار
بیچنا جائز نہیں اور ہاتھوں ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں۔(ترمذی،ج3،ص19، حدیث:1242)
شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:” فإن الجنس عندنا يحرم النساء
بانفراده“
ترجمہ : ہمارے نزدیک صرف جنس ایک ہونا بھی ادھار کو حرام کر دیتا ہے ۔(المبسوط للسرخسی،جز12،ج 6،ص143)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کمیشن ایجنٹ کا زائد قیمت پر چیز بیچنا
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمیشن ایجنٹ کمپنی
ریٹ سے زیادہ قیمت پر چیز بیچ کر اضافی رقم خود رکھ سکتا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
جواب: شرعی قوانین کی رو سے بروکر ایک نمائندہ ہوتا ہے خود پارٹی نہیں ہوتا
بلکہ دو پارٹیوں کو ملوارہا ہوتا ہے ۔سودا اگر زیادہ پیسوں میں ہوتا ہے تو اس پر
لازم ہے کہ مال بیچنے والے کو اسی قیمت سے آگاہ کرے جس قیمت میں مال بکا ہے اور پوری قیمت بیچنے والے کے حوالے کرے اصل قیمت
میں سے خود رکھنا اور مالکان کو آگاہ نہ کرنا یہ حرام فعل ہے نہ ہی یہ اضافی رقم
اس کیلئے حلال ہوگی۔یہ صرف اپنی مقررہ کمیشن کا حق دار ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
زیادہ ایڈوانس دے کر کرایہ کم
کروانا کیسا؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے
میں کہ میں ایک مکان کرایہ پر لینا چاہتا ہوں جس کا کرایہ عام طور پر پچیس ہزار
روپے اور ایڈوانس پانچ لاکھ روپے ہوتا ہے لیکن مالک مکان نے مجھے یہ آفر کی ہے کہ اگر آپ مجھے بارہ لاکھ روپے ایڈوانس دے
دو تو میں کرایہ کم کرکے پندرہ ہزار کردوں گا۔ کیا اس طرح زیادہ ایڈوانس دے کر
کرایہ کم کروانا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں رائج ایڈوانس کے
مقابلے میں زائد رقم اسی لئے لی گئی ہے کہ مالک مکان اس کرایہ دار کو بدلے میں
فائدہ پہنچائےکہ اس سے کرایہ کم لیا جائے۔
رائج مقدار سے ہٹ کر لیا گیا زیادہ
ایڈوانس بھی عام ایڈوانس کی طرح قرض ہے لیکن عام ایڈوانس کے مقاصد میں سب سے
نمایاں پہلو سیکیورٹی کا ہوتا ہے جبکہ زائد ایڈوانس میں بدلہ یا معاوضہ دینا مقصود
ہوتا ہے۔ زائد ایڈوانس لینے والا قرض پر نفع دیتے ہوئے عرف سے کم کرایہ وصول کرتا
ہے یا بالکل ہی کرایہ نہیں لیتا۔ یہ سودی صورت ہے کہ قرض سے نفع اٹھانا پایا جارہا
ہے۔ لہٰذا یہ طریقہ کارسودی معاملہ ہونے کی وجہ سے ناجائز وگناہ ہےکیونکہ ایڈوانس کی رقم پراپرٹی کے مالک پر قرض ہوتی ہے
اور کرایہ دار قرض دے کر اس سے مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جوکہ سودی فائدہ ہے
لہٰذا جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دار الافتاء اہلسنت نور العرفان ،کھارادر،باب المدینہ کراچی
Comments