دوست کی مدد کا صلہ حضرت سیدنا
ابو عبداللہ محمد واقِدِی قاضی علیہ رحمۃ اللہ الہادِیفرماتے
ہیں: ایک مرتبہ بڑی تنگدستی تھی اور عید روز بروز قریب آرہی تھی، ہمارے پاس کچھ
بھی نہ تھا، میں اینے ایک تا جر دوست کے
پاس گیا اور اپنی حالتِ زار بیان کی، انہوں نے فورا ًمجھے ایک مُہْر بَنْد تھیلی
دی جس میں بارہ سو درہم تھے، میں گھر
آیااور وہ تھیلی گھر والوں کے حوالے کردی، گھر والوں کو کچھ ڈھارس ہوئی کہ اب عید
اچھی گزر جائے گی ، ابھی ہم نے اس تھیلی کو کھولا بھی نہ تھا کہ میرا ایک دوست میرے پاس آیا جس کا تعلق سادات کے گھرانے
سے تھا ،اس کے حالات بھی ہماری ہی طرح تھے، اس نے کہا کہ مجھے کچھ رقم قرض دے دو۔
اس کی بات سن کر میں اپنی زوجہ کے پاس گیا اور اسے صورتحال سے آگا ہ کیا، وہ کہنے
لگی:”اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟“ میں نے کہا:” ہم اس طر ح کرتے ہیں کہ آدھی رقم اس سید زادے کو قرض دے
دیتے ہیں اور آدھی ہم خرچ میں لے آئیں گے ،اس طر ح دونوں کا گزارہ ہوجائے گا۔ یہ
سن کر میری زوجہ نے عشقِ رسول صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ڈوبا ہو ا
جملہ کہا جس نے میرے دل میں بہت اثر کیا، وہ کہنے لگی:” جب آپ جیسا ایک عام شخص
اپنےدوست کے پاس اپنی حاجت مندی کا سوال
لے کر گیا تو اس نے آپ کو بارہ سو درہم کی
تھیلی عطا کی اور اب جبکہ آپ کے پاس دونوں جہاں کے سردار صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اولاد میں سے ایک شہزادہ اپنی حاجت لے
کر آیا ہے تو آپ اسے آدھی رقم دینا چاہتے ہیں کیا آپ کا عشق اس بات کو گوارا کرتا ہے؟ اپنی زوجہ
سے یہ محبت بھرا کلام سن کر میں نے وہ ساری رقم اٹھائی اور بخوشی اپنے دو ست کو دے
دی، وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ میراوہ
سیدزادہ دوست جیسے ہی اپنے گھرپہنچاتواس کے پاس میراوہی
تاجردوست آیا اور اس سے کہا:”میں ان دنوں بہت تنگ دستی کا شکار ہوں، مجھے کچھ رقم
اُدھاردے دو۔“یہ سن کراُس سیدزادے نے وہ رقم کی تھیلی میرے اس تا جردوست کودے دی
جو میں اسی سے لے کرآیاتھا،جب میرے اس تاجردوست نے وہ رقم کی تھیلی دیکھی
توفوراًپہچان گیا اور میرے پاس آکرپوچھنے لگا:” جورقم تم مجھ سے لے کر آئے ہو، وہ
کہاں ہے؟“میں نے اسے تمام واقعہ بتایاتووہ کہنے لگا:”اِتِّفاق سے وہی سیدزادہ
میرابھی دوست ہے، میرے پاس صرف یہی بارہ سودرہم تھے جومیں نے آپ کودے دیئے، آپ نے
اس سیدزادے کودیئے اوراس نے وہ مجھے دے دیئے اس طرح ہم میں سے ہرایک نے اپنے آپ
پردوسرے کوترجیح دی اوردوسرے کی خوشی کی خاطراپنی خوشی قربان کردی۔“
ہمارے اس واقعے کی خبر کسی طر ح حاکمِ وقت یحییٰ بن خالد بَرْمَکی کوپہنچ
گئی، اس نے فوراً اپنے قاصد کے ہاتھ پیغام دیا: میں اپنی کچھ مصروفیات کی بناء پر
آپ کی طرف سے غافل رہااور مجھے آپ کے حالات کے بارے میں پتہ نہ چل سکا، اب میں غلام کے ہاتھ دس ہزار دیناربھیج رہا ہوں، ان میں سے دو
ہزار آپ کیلئے،دو ہزار آپ کے تاجر دوست کیلئے اور دوہزار اس سید زادے کیلئے باقی
چار ہزار دینا ر تمہاری عظیم وسعادت مند بیوی کیلئے کیونکہ وہ تم سب سے زیادہ غنی،
افضل اور عشق رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیکر ہے۔ (عیون الحکایات،ص125ماخوذاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رشتے سارے ہی
قابلِ قدر ہوتے ہیں لیکن دوستی کے رشتے میں ایک الگ ہی مُرُوَّت و لحاظ پایا
جاتاہے۔مذکورہ سچے واقعہ سےمعلوم ہوا کہ ایک اچھا دوست کیسا ہوتاہے،ہم معاشرے میں
دیکھتے ہیں کہ دوستی اچھے اعمال و تعلقات کی بنا پر ہو یا برےکاموں کے حوالے
سے البتہ اسے اہمیت دی جاتی ہےلیکن یاد
رکھئے! حقیقت میں دوستی وہی ہے جو اچھائی پر مبنی ہو۔ بحیثیتِ مسلمان ہماری دوستی
و ناطہ صرف اسی سے ہو نا چاہئےجو ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ نہیں بلکہ دنیا سے پہلے
آخرت کا فائدہ پہنچائے۔ ذیل میں ذکر کیا جائے گا کہ اسلامی تعلیمات اور حقیقی انسانی معاشرے کی روشنی میں ہم کس
طرح کےلوگوں سےدوررہیں،نیز ایک سچے اور باوفا دوست کے اوصاف کیا ہیں؟
بدمذہب و بے دین سے دوستی نہ کرو بعض لوگ دوستی کے معاملے میں دین کو اہمیت
نہیں دیتے حالانکہ یہ بہت ہی خطرناک ہے۔ بدمذہبوں کے بارے میں فرماِن مصطفےٰ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں
کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔
(مسلم،ص
17،حدیث:7)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دوستی صرف ساتھ
اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کا نام نہیں ہے، جس سے دوستی ہوتی ہے زندگی کے کئی موڑوں
پر اس سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے دوست کے انتخاب میں بزرگوں کے فَرامِین و نَصائِح
کو لازمی پیشِ نظر رکھنا چاہئے چنانچہ ان پانچ سے دوستی نہ کرو حضرتِ سیِّدُنااِمام زینُ
العابدینعلی بن حسین رحمۃ
اللہ تعالی علیھمانے اپنے بیٹے حضرتِ سیِّدُناامام
باقِر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو
نصیحت فرمائی کہ پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت اختیار نہ کرنا، (1) فاسق کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا
ایک سے کم لقمہ کے بدلے میں بیچ دے گا، لقمے کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر
سکے گا۔ (2)بخیل کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے
گا جب تجھے اس کی سخت حاجت و ضرورت ہوگی۔(3)جھوٹے کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ
سَراب کی طرح ہے جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دےگا(یعنی دھوکا دے
گا)۔
(4)اَحمق(بےوقوف) کی صحبت اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھےفائدہ پہنچانے کی کوشش میں
نقصان پہنچا دے گا۔ (5)رشتہ داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے
بچنا کیونکہ میں نے کتابُ اللہ میں تین مقامات پراسے ملعون
پایا ہے(یعنی
ایسے پر لعنت کی گئی ہے)۔ (حلیۃ
الاولیاء،ج 3،ص215،رقم:3745)
سچے اور باوفا دوست کے اوصاف ٭سچا دوست بھروسامند، وفادار اور رازدار ہوتا ہے۔٭غموں میں
شریک ہونے والا اور خوشیوں میں یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ ٭ کسی بھی معاملے میں مفید مشورہ دینے والا اور غلط قدم اٹھانے سے روکنے والا
ہوتا ہے۔ ٭خودغرضی
سے پاک ہوتا ہے۔ ٭ضرورت
کے وقت ساتھ دینے والا ہوتا ہے۔ ٭ غلطیوں پر معاف کرنے والا اور اچھائیوں پر حوصلہ افزائی کرنے والا ہوتاہے۔ ٭اچھا
دوست اپنے دوست کو برائی و گناہ میں تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اسے نیکیوں کی طرف لانے
کی ہرممکن کوشش کرتاہے۔ ٭مخلص دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اوراپنے دوست کی غیر
موجودگی میں اُس کی عزت نہ اُچھالے۔ ٭مخلص دوست کی نظر عیش وآرام یا دولت پر نہیں بلکہ اچھائیوں اور اچھی عادات پر ہوتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ناظم ماہنامہ فیضان
مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments