زبان کا استعمال

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! زبان کا اچھا استعمال جنّت میں جانے کا ذریعہ جبکہ اس کا غلط استعمال ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے، اسے اس حکایت سے سمجھئے، حضرتِ سیِّدنا ابوبکر شبلی بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی فرماتے ہیں:میں نے اپنے مرحوم پڑوسی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا، مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ؟ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ وہ بولا: میں سخت ہولناکیوں سے دو چا ر ہوا، مُنکَر نکیر کے سُوالات کے جوابات بھی مجھ سے نہیں بَن پڑ رہے تھے، میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا! اتنے میں آواز آئی:”دنیا میں زَبان کے غیر ضَروری استِعمال کی وجہ سے تجھے یہ سزا دی جارہی ہے۔“ اب عذاب کے فِرِ شتے میری طرف بڑھے۔ اتنے میں ایک صاحِب جو حُسن و جمال کے پیکر اور مُعَطَّر مُعَطَّر تھے وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہوگئے اور انہوں نے مجھے مُنکَر نکیر کے سُوالات کے جوابات یاد دلا دیئے اور میں نے اُسی طرح جوابات دے دیئے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ عذاب مجھ سے دُور ہوا۔ میں نے اُن بُزُرگ سے عرض کی:اللہ کریم آپ پر رحم فرمائے آپ کون ہیں؟ فرمایا: تیرے کثرت کے ساتھ دُرُود شریف پڑھنے کی بَرَکت سے میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے ہر مصیبت کے وقت تیری امداد پر مامور کیاگیا ہے۔

(غیبت کی تباہ کاریاں، ص 116 بحوالہ القول البدیع، ص260)

آپ کا نامِ نامی اے صَلِّ عَلٰی

ہر جگہ ہر مصیبت میں کام آ گیا

زبان کے استعمال کی اہمیت جیسے کسی بڑے برتن کے اندر کئی طرح کے پھول رکھے ہوں اور اس کا ڈھکن کھولا جائے تو ان پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے، یوں ہی اگر کسی گٹر کا ڈھکن کھولا جائے تو بدبو کے اس قدر بھبکے اٹھتے ہیں کہ جس سے آس پاس کا خوشگوار ماحول بھی متأثر ہونے لگتا ہے، اسی طرح انسان جب بولتا ہے تو وہ اپنی شخصیت کا تعارف پیش کررہا ہوتا ہے، اس کے الفاظ اس کی سمجھداری، معلومات اور کردار کا پتا دیتے ہیں، جن لوگوں کا باطن میٹھے مدینے کے مدنی پھولوں سے مہکتا ہو، عشقِ مصطفےٰ (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے جن کا سینہ رچا بسا ہو وہ جب لب کھولتے اور بولتے ہیں تو شمعِ رسالت (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پروانے کھنچے چلے آتے ہیں، لیکن بعض لوگ جب بولتے ہیں تو ان کی گفتگو اتنی فحش و بےحیائی سے بھرپور ہوتی ہے جیسے گٹر کا ڈھکن کھل گیا ہو یا ایسے بولتے ہیں جیسے دلوں پر تیر چلا رہے ہوں کیونکہ ان کی گفتگو طعنہ زنی اور دل آزاری پر مشتمل ہوتی ہے۔

الفاظ کب تیر بنتے ہیں؟ عموماً انسان کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، جیسا مقصد ویسی گفتگو، اگر سامنے والے کا دل خوش کرکے ثواب کمانے کا ارادہ ہو تو گفتگو بھی اچھے اور ستھرے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، اگر مخاطَب پر غصہ اتارنا مقصود ہے یا اسے طعنہ دینے، نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے جیسے گناہوں بھرے مَقاصِد ہوں تو گفتگو بھی ان ہی الفاظ پر مشتمل ہوگی، نتیجۃً اس سے مخاطب کا دل پارہ پارہ ہوجائے گا۔

عموماً جن لوگوں کے الفاظ تیر بنتے ہیں عام طور پر جن لوگوں کو کسی پر تسلط حاصل ہوتا ہے جب وہ بولتے ہیں تو تولتے نہیں، نتیجۃً ایسوں کی گفتگو مخاطَبین (سامنے والوں) کے دلوں پر تیر برسنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً ٹیچر کی اسٹوڈنٹ سے گفتگو، والدین کی اولاد سے، نگران کی ماتحت سے، سیٹھ کی نوکر سے، شوہر کی بیوی سے، مالک مکان کی کرائے دار سے۔ پھر زبان کا دُرست استعمال نہ کرنے والوں کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہر وقت ٹینشن کے شکار، تکالیف میں مبتلا، اداسی ان کے چہروں پر چھائی رہتی، ان کی مسکراہٹ پھیکی پھیکی سی اور کم دورانیہ والی ہوتی ہے، لوگ ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے، جو مجبوری کی وجہ سے قریب ہوتے ہیں وہ دور ہونے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔

پہلے تولو! بعد میں بولو! لہٰذا یہ سوچنا ضَروری ہے کہ میرے بولنے کا مقصد کیا ہے، کسی کا دل دُکھانا یا خوش کرنا، گالی دینا یا دعا دینا، کسی کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے لئے ترقّی کی راہیں ہموار کرنا یا پھر کسی کی حوصلہ شکنی کرکے اسے ناکارہ بنا دینا وغیرہ، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ جس طرح ہم اپنے ہاتھ کو چلاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کو لگ نہ جائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی نہ ہوجائے تو اسی طرح زبان کے استعمال سے پہلے بھی ہمیں سوچنا اور اس مدنی پھول ”پہلے تولو! بعد میں بولو!“ پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرما کر پہلے تولنے اور بعد میں بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share