توریت کا
بہترین قاری اللہ کریم کے نبی حضرتِ سیّدنا موسیٰ علیہ السَّلام کا
چچا زاد بھائی (Cousin) ”قَارُون“
اِنتِہائی خوبصورت تھا، بےپناہ حُسن کی وجہ سے اُسے ”مُنَوَّر“(یعنی چمک دار) کہا جاتا تھا، یہ بنی اسرائیل میں ”توریت شریف“ کا
سب سے بہترین قاری تھا، جب تک یہ غریب تھا
بہت حُسنِ اَخلاق سے پیش آتا تھا، لیکن جیسے
ہی امیر ہوا مغرور اور خود پسند ہوکر منافق ہوگیا۔ خزانوں کی
چابیاں اللہ پاک نے قارون کو اِتنے خزانے
عطا فرمائے تھے کہ اُن خزانوں کی چابیاں اٹھانا ایک طاقتور جماعت پر بھی بھاری
تھا، لوگ اُس کے خزانے کی بھاری چابیاں اٹھا کر تھک
جایا کرتے تھے، جب قارون سفر پر نکلتا تو اُس کے خزانوں کی چابیاں خچروں (Mules) پر رکھی جاتی تھیں۔ قارون کی شانِ بے شان ایک مرتبہ قارون گھر سے اس حالت میں نکلا کہ سفید رنگ کے خچر پر لال رنگ کا قیمتی جوڑاپہنے ہوئے سوار تھا جبکہ خچر کی زِین (یعنی وہ گَدّی جو جانور کی
پیٹھ پر باندھی جاتی ہے) سونے کی تھی، اُس کے ساتھ
ہزاروں لونڈیاں اور غلام ریشمی لباس اور زیورات پہنے سجے ہوئے گھوڑوں پر سُوار
تھے۔ سونے کا دروازہ اور تختے اِسی طرح ایک مرتبہ قارون نے ایسا مکان بنوایا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور اُس مکان کی دیواروں پر سونے کے تختے بھی لٹکائے گئے تھے، بنی اسرائیل اس کے پاس کھانے
پینے آتے تھے اور قارون کی تفریح کا سامان کیا کرتے تھے۔ قارون
کی نافرمانی جب زکوٰۃ کا حکم نازِل ہوا تو قارون حضرتِ موسیٰ علیہ
السَّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اُن سے طے کیا کہ وہ اپنے تمام
مال کا ہزارواں حصّہ زکوٰۃ کے طور پر دیا کرے گا، لیکن جب گھر آ کر اُس نے حساب
لگایا تو اُس کے مال کا ہزارواں حصّہ بھی بہت
زیادہ بَن رہا تھا، یہ دیکھ کر قارون نافرمان ہوگیا اور اس نے بنی اسرائیل کو حضرتِ
موسیٰ علیہ السَّلام سے بدگُمان کرنے کے لئے ایک بُری عورت کو 1000دِینار
(سونے کے سِکّے) اور 1000 دِرہم (چاندی کے سِکّے) دے کر اِس بات پر راضی کیا کہ وہ بھرے مجمع میں آپ پر تُہمت (یعنی گناہ کا الزام) لگائے۔ قارون زمین میں دھنس گیا
چنانچہ جب آپ علیہ السَّلام وعظ و نصیحت کے لئے لوگوں کے درمیان تشریف لائے تو قارون نے کہا: بنی اسرائیل
کا خیال ہے کہ آپ کا کردار ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ایک عورت آپ کے بارے میں ایسا ایسا
کہتی ہے۔ آپ علیہ السَّلام نے اُس عورت کو بلایا
اور اُسے اللہ پاک
کی قسم دے کر ماجرا پوچھا تو وہ ڈر گئی اور قارون کی سِکھائی ہوئی جھوٹی بات بولنے
کے بجائے سب سچ بیان کرتے ہوئے قارون کی مُنافَقت اور رِشوت دینے کا پول کھول دیا۔ یہ دیکھ کر آپ علیہ السَّلام روتے
ہوئے سجدے میں گِرگئے اور عرض کی: اے اللہ! اگر میں تیرا رسول ہوں تو
قارون پر غضب فرما! چنانچہ آپ کی اِس دُعا کے بعد قارون اپنے دوساتھیوں کے ساتھ
پہلے گھٹنوں تک، پھر کمر تک، اِس کے بعد گردن تک اور پھر بالآخر پورا زمین میں
دھنس گیا، اور یہی حال اس کے مال اور خزانے کا بھی ہوا۔
(ماخوذ از صراط الجنان،ج 7،ص319،326،329،330)
حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول
پیارے مَدَنی مُنّو اور
مَدَنی مُنّیو! ٭غُرور و تکبّر اللہ پاک
کو سخت ناپسند ہے ٭ہمارے پاس بڑا منصب ہو یا نہ ہو، زیادہ مال و دولت ہو یا نہ ہو، ہر حال میں
عاجِزی کرنی چاہئے ٭ جو اللہ پاک کے لئے عاجِزی کرتا ہے اللہ کریم اُسے بلندی عطا فرماتا ہے
اور ٭جو
دولت و منصب کی وجہ سے نافرمانی کرتا ہے اُس کا انجام دنیا و آخِرت
میں ذِلّت اور رسوائی ہی ہوتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمّہ دار شعبہ فیضان
امیر اہلسنت ،المدینۃ
العلمیہ ،باب
المدینہ کراچی
Comments