عقیدہ عرش ایک عظیم، بلند، نورانی مخلوق ہے ۔عرش و کرسی پر ایمان لانا واجب ہے۔([1]) نورِ
محمدی کے بعدعرش اللہ پاک کی پہلی تخلیق ہے۔([2])عرش کتنا
بڑا ہےعرش تمام
مخلوقات میں سب سے بڑا ہے۔ اللہ پاک نے اسے ساتویں آسمان کے
اوپر قائم کیا ہوا ہے۔([3]) عرش جنّت کے اوپر ہے نبیِ رحمت، شفیعِ امت صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب اللہ کریم سے مانگو تو جَنَّۃُ الْفِردَوس مانگو کہ وہ اَوسط بہِشت اور
اعلیٰ جنت ہے اور اس کے اوپر عرشِِرحمٰن ہے اور اسی سے جنّت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔ ([4]) یعنی
جنّت کی چھت عرش ہے۔([5]) عرش کس چیز سے بنا ہے؟اس
بارے میں مختلف اقوال ہیں:(1) نور سے بنا ہے (2)سبز زَبَرْجَدْ سے بنا ہوا ہے،
(3)سرخ یاقوت سے بنا ہے۔ امام ابراہیم باجوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
اس کی حقیقت کا قطعی علم نہیں ہے اس لئے اس
بارے میں حَتَّمِی رائے قائم کرنے سے خاموش رہنا اَولیٰ (بہتر)
ہے۔اس کی
ہیئت(شکل وصورت) کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ عرش
گول نہیں ہے بلکہ وہ گنبد نما ہے جوجنت کی
چھت ہونے کے ساتھ تمام مخلوقات اور دنیا کے اوپر سایہ فِگن ہے، اس کے چار ستون
ہیں۔([6]) زمین و آسمان سے بھی پہلے حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں ہرمعمار
پہلے دیواریں بناتا ہے پھر اُن پر چھت ڈالتا ہے لیکن اللہ پاک نے پہلے چھت
بنائی پھر دیواریں کیونکہ اس نے ز مین وآسمان کو بنانے سے پہلے عرش بنایا پھر
ہوا کو پیدا فرمایا اس کے پَر بنائے،ان
پروں کی کثرت کو اللہ تعالی ہی جانتاہے۔پھر
ہوا کو حکم دیا کہ وہ پانی کو اٹھائے، اللہ تعالی کا عرش پانی کے اوپر ہے جبکہ پانی ہوا پر ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کو پیدا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کو عرش وکرسی کی حاجت نہیں بیشک وہ ان دونوں کے
بنانے سے پہلے بھی تھا حالانکہ اس وقت مکان بھی نہ تھا۔ ([7]) زمین و آسمان سے پہلے عرش کہاں تھا؟ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:اللہ پاک نے زمین وآسمان پیدا
کرنے سے پچاس ہزار (50,000)سال پہلے ہی مخلوق کی تقدیریں لکھ دی تھیں اس وقت اللہ کریم کا عرش پانی پر تھا۔([8]) شرح حکیم الامت حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اس پانی سے مراد یہ سمندر کا پانی نہیں بلکہ
عرشِ اعظم کے نیچے قدرتی پانی ہے جو ہوا پر ہے اور ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت پر۔اس
فرمان کا یہ مطلب نہیں کہ عرش پانی پر رکھا ہوا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پانی
اور عرش کے درمیان کوئی آڑ نہ تھی جیسے ہم کہیں کہ آسمان زمین پر ہے یعنی زمین کے
اوپر ہے۔اس سے معلوم ہورہا ہے کہ عرش اور پانی
سب سے پہلے پیدا ہوئے۔([9]) حاملینِ عرش فرشتے عرش اٹھانے والے فرشتے ابھی
چار ہیں اورجب قیامت قائم ہوگی تو اللہ پاک مزید چار فرشتوں سے
ان کی مدد فرمائے گا چنانچہ قراٰنِ پاک میں ہے:( وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ(۱۷))([10])ترجمۂ
کنزالایمان:اور اس
دن تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔اس
آیت کے تحت صدرالافاضل علامہ سید محمدنعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں: حدیث شریف میں ہے کہ حاملینِ عرش آج کل
چار ہیں روزِ قیامت ان کی تائید کے لئے چار کا اور اضافہ کیا جائے گا آٹھ ہوجائیں
گے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ
تعالٰی عنہما سے مروی
ہے کہ اس سے ملائکہ کی آٹھ صفیں مراد ہیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانے۔ ([11]) عرش سے معلق
تین چیزیں ہمارے پیارےمصطفےٰ کریمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
:تین چیزیں عرش سے لٹکی ہوئی ہیں: (1)رشتہ داری،
یہ کہتی ہے: یااللہ! میں تیری وجہ ہی سے ہوں لہذا مجھے نہ توڑا جائے(2)امانت، یہ کہتی ہے:یااللہ! میں تیری وجہ سے ہی
ہوں لہذا مجھ میں خيانت نہ کی جائےاور (3)نعمت
کہتی ہے: يا الٰہی! میں تیری طرف سے ہوں لہذا ميری ناشکری نہ کی جائے۔([12]) عرش کیوں ہلتا ہے؟ احادیثِ مبارکہ میں کئی ایسے اعمال ذکر کئے گئے ہیں
جن سے اللہ پاک کا عرش ہلنے لگتا ہے
چنانچہ حضور نبی کریم، رؤف رّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے 2فرامین ملاحظہ
کیجئے:(1)جب فاسق کی مدح (تعریف) کی جاتی ہے، رب تعالیٰ غضب فرماتا ہے اور عرشِ الٰہی جنبش کرنے(یعنی ہلنے) لگتا ہے۔([13]) (2)شادی کرو اور طلاق نہ دیا
کرو کہ طلاق سے عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے۔ ([14]) بعض اوقات عرش کا ہلنا رحمت کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ نبیِّ
پاک صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اچھی نیت عرش سے چمٹ جاتی ہے پس جب
کوئی بندہ اپنی نیت کوسچا کر دیتا (یعنی اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا) ہے تو عرش ہلنے لگ جاتا ہے، پھر
اس بندے کو بخش دیا جاتا ہے([15]) عرش کے سائے میں سب سے پہلےکون ہوگا؟ سیِّدُ الْمُبَلِّغِین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:بے شک قیامت کے دن اللہ کریم کے عرش
کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے والا وہ شخص ہوگا جس نے کسی تنگد ست کو مہلت دی
تاکہ وہ قر ض کی ادا ئیگی کے لئے کچھ پالے یا اپنا قرض معاف کردیا اور کہا کہ میرا
مال تم پر اللہکریم کی رضا
کے لئے صدقہ ہے اور اُس قرض کی رسید کو پھاڑدے۔([16])
کرسی کرسی بھی (اللہ پاک) کی
عظیم نورانی مخلوق ہے۔ یہ عرش کے نیچے عرش سے ملی ہوئی ہےاور ساتویں آسمان کے
اوپر ہے۔ ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور اس (مسافت کے) بارے میں بھی کوئی یقینی رائے قائم کرنے سے خاموشی بہتر ہے۔ کرسی عرش سے جداگانہ اللہ پاک کی مخلوق ہے۔ اللہ پاک کی ہر تخلیق میں
کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہونےکے باوجود اللہ تعالیٰ کوان چیزوں کی محتاجی نہیں لہٰذا اس نے عرش کو نہ بلندی چاہنے
کے لئے پیدا فرمایا نہ کرسی کو بیٹھنے کے لئے تخلیق فرمایا۔ ([17])
کرسی کیسی ہے؟ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:کرسی بھی موتی کی اور قلم بھی موتی کا ہے، قلم کی لمبائی 700سال کی مسافت
ہے اور کرسی کی لمبائی جاننے والے بھی نہیں جانتے۔([18]) کرسی کی وسعت نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:ساتوں آسمان کرسی کے آگے ایسے ہیں جیسے صحرا میں ایک چھلا پڑا ہو اور عرش کرسی کے مقابلے میں
اتنا بڑا ہے جیسے چھلے کے مقابلے میں
صحرا۔([19]) حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:کرسی کے
چار پائے ہیں، جن میں سے ہر ایک آسمان و زمین سے زیادہ لمبا ہے،ساری دنیا کرسی کے
سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کسی کی
ہتھیلی پر رائی کا دانہ۔([20])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…رکن مجلس المدینۃالعلمیہ باب المدینہ کراچی
[1] تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص434
[2] شرح
الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص390
[3] تفسیرکبیر،
پ 12، ھود، تحت الآیۃ:6،ج
7،ص320
[4] بخاری،ج
4،ص547، حدیث: 7423
[5] شرح
المقاصد،ج 3،ص361
[6] تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید،
ص434، شرح
الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص390
[7] الانس الجلیل،ج 1،ص73، 74ملخصاً
[8] مسلم،
ص 1094، حدیث:6748
[9] مراٰۃ
المناجیح،ج 7،ص562
[10] پ29، الحاقۃ:17
[11] خزائن العرفان،
ص 1050
[12] مسند البزار،ج 10،ص117، حدیث:4181
[13] شعب
الایمان،ج 4،ص230، حدیث:4886
[14] جامع
الصغیر، ص197، حدیث:3289
[15] تاریخ
بغداد،ج 12،ص444، رقم:6926
[16] مجمع
الزوائد،ج 4،ص241، حدیث: 6670
[17] تحفۃ المرید، ص:434، 435
[18] کتاب العظمۃ، ص101،
حدیث:260
[19] کتاب العظمۃ، ص83،
حدیث:208
[20] کتاب
العظمۃ، ص95۔
Comments