اس بات میں کوئی دو
رائے نہیں کہ دنیا بھرمیں اسلام پھیلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ بندگانِ خدا ہیں
جنہیں صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے طبقےمیں شمار کیا جاتا ہے۔ ان ہی عظیم
ہستیوں میں سے ایک بلند پایہ روحانی شخصیت شیخُ الشُّیوخ،غوثِ زمانہ شیخُ الاسلام بہاؤالدین
زکریا ملتانی سہروردی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کی بھی ہے، آپ صحابیِ رسول حضرت سیّدنا ہَبّار
بن اَسْوَد ہاشمی قرشی رضی
اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے ہیں۔
(تذکرہ حضرت
بہاؤالدین زکریا ملتانی،ص25)
ولادت باسعادت آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ بروز جمعہ کوٹ کروڑ (ضلع مظفر گڑھ، پنجاب
پاکستان) میں 27 رمضانُ المبارک 566ھ مطابق 3 جون 1171ء کو پیدا ہوئے۔(احوال وآثار حضرت بہاؤالدین
، ص26)
حصولِ علم اور شرفِ بیعت کے لئے سفر آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے علومِ ظاہری و باطنی کےحصول
کے لئے خراسان، بخارا اور حجازِ مقدسہ وغیرہ کا سفر فرمایا۔ جب بغداد پہنچے تو وہاں
شیخ المشائخ حضرت سیّدنا شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ
رحمۃ اللہ القَوی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر بیعت کا شرف حاصل کیا۔
خلافت کےحصول پر پیر بھائیوں
کا تعجب مرشدِکامل نے مریدِ کامل کو
اپنی صحبت سے نوازا اور صر ف 17دن بعد خلافت عطا فرما دی، دیگر مریدین کے لئے یہ بات
تعجب انگیز تھی کہ شیخ اتنی جلدی کسی کو خلافت عطا نہیں فرماتے تو بہاؤالدین زکریا
پر یہ لطفِ خاص کیوں؟ مرشدِ کریم نے فراستِ مؤمنانہ سے مریدوں کی یہ بات جان لی
اور فرمایا: تم سب گیلی لکڑی کی طرح ہو، جس پر عشقِ الٰہی کی آگ جلدی اَثَر نہیں
کرتی، گیلی لکڑی کو جلانے کے لئے شدید محنت چاہئے، جبکہ بہاؤالدین زکریا سوکھی
لکڑی کی طرح تھا کہ ایک ہی پھونک سے محبتِ الٰہی سے بھڑک اٹھا اسی لئے اسے میں نے
اتنی جلدی خلافت دےدی۔ (گلزارِ ابرار، ص،55،56ملخصاً)
لوگوں
کی اِصلاح کے لئے تدابیر
ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ ہوکر جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ملتان تشریف لائے تو یہاں پرآپ نے دعوت وتبلیغ
کا کام شروع فرمایا، فرد اور معاشرے کی اِصلاح کے لئے مثالی خدمات سَر اَنجام دیں۔
فرد کی اِصلاح اس کے لئے خانقاہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں لوگ آکر ٹھہرتے اور آپ
کی صحبتِ بابرکت سے فیض یاب ہوتے، اپنے قلوب کی پاکیزگی کا اہتمام کرتے، اس خانقاہ
میں ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا۔
معاشرے
کی اِصلاح اس کے لئے
آپ نے ایک مُنَظَّم ادارہ قائم فرمایا، جسے آج کی
اِصطلاح میں جامعہ (University) کہا
جاتا ہے، اس میں تدریس کے لئےمناسب تنخواہ و رہائش کی سہولیات دے کر مختلف زبانوں
کے ماہرین عُلَما و فُضلاکو مقرر فرمایا۔ یہ ایک اِقامتی (رہائشی) ادارہ تھا، دور دراز سے
طلبہ آکر یہاں ٹھہرتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے، ان کے لئے طعام کا اہتمام بھی
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرف سے ہوتا۔ طالبانِ
علومِ نبویہ کو اس وقت کے مُرَوَّجہ مختلف
علوم و فنون سکھائے جاتے۔ اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے برِّعظیم کےساتھ
عراق، شام اور سر زمینِ حجاز سے بھی آکر طلبہ داخلہ لیتے۔ اس ادارے میں تعلیم کے
ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جاتی تھی، طلبہ کو علم و عمل کا پیکر بنایا جاتا، تاکہ وہ
اپنے وطن واپس جاکر اسلام کی تَروِیج و اشاعت کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دے
سکیں۔(احوال و آثار حضرت بہاؤالدین،ص
85مفہوماً)
تبلیغِ دین کے لئے ایک انقلابی سرگرمی
اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے مبلغین کی تربیت کا ایک باقاعدہ شعبہ تھا جہاں مختلف علاقوں
کی زبانیں اُنہیں سکھائی جاتیں، جس مبلغ کو جہاں بھیجنا ہوتا اسے وہاں کے رہن سہن
اور تہذیب و ثقافت سےآگاہی دی جاتی پھر اسے وہاں بھیجا جاتا تاکہ وہاں جاکر اسلام
کا پیغام بہترین اندازمیں عام کر سکے، سال میں ایک مرتبہ یہ تمام مبلغین جمع ہوتے اور
اپنی سال بھر کی کاوشوں کی کارکردگی پیش کرتے۔ (اللہ کے ولی،ص470ملخصاً) معاشی طور پر خودکفیل کرنے
کے لئے ان مبلغین کو سامان ِ تجارت دے کر روانہ کیا جاتا، ان کی ایسی تربیت کی
جاتی کہ خریدار ان کے حسنِ کردار اور حسنِ معاشرت سے متأثر ہوکر دامنِ اسلام سے
وابستہ ہوجاتا، ان مبلغین نےجن علاقوں میں اسلام کی روشنی کو پہنچایا ان میں
سرِفہرست افغانستان، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین کا ذکر ہے۔(احوال وآثار حضرت بہاؤالدین،
ص 85مفہوماً)
دعوتِ اسلامی فیضانِ انبیا و اولیا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ!
موجودہ دور میں دعوتِ اسلامی حضرت سیّدنا بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اور
دیگر بزرگان ِ دین کا فیضان اور ان کی دینی خدمات کو جاری رکھنے والی ایک عالمگیر مدنی
تحریک ہے۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت مولانا محمد الیاس عطّارقادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ کے عطا فرمودہ مدنی مقصد ”مجھے اپنی اور ساری
دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش کرنی ہے“ کے حصول کے لئے 104 سے زائد شعبہ
جات قائم ہیں، ہرشعبہ اپنے اپنے انداز میں دینِ متین کی خدمت کے لئے شب و روز کوششوں میں مصروفِ عمل ہے، نیکی کی
دعوت کو عام کرنے اور بُرائی سے منع کرنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک گاؤں
سے دوسرے گاؤں ایک ملک سے دوسرے ملک تربیت یافتہ مبلّغین کا مدنی قافلوں کے
ذریعے سفر، پوری دنیا میں فیضانِ انبیا و اولیا کو عام کرنے میں مدنی چینل کا کردار
اور لوگوں کی دینی، دنیاوی اور معاشرتی راہنمائی کے لئے ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کا
اِجرا اپنی مثال آپ ہے۔
وصالِ
باکمال حضرت
بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ 7 صفر المظفر 661ھ مطابق 21 دسمبر 1262ء کو حسبِ معمول اپنے وظائف
میں مشغول تھے کہ آپ کے صاحبزادے شیخ صدرُ الدّین عارف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک
نورانی شخص کو دیکھا، اُنہوں نے ایک رُقْعَہ آپ کے والد ماجد کو دینے کے لئے کہا،
صاحبزادے حجرہ میں داخل ہوئے اور رُقْعَہ پیش کرکے
باہر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز آئی: وَصَلَ الْحَبِیْبُ اِلَی الْحَبِیْبِ یعنی دوست دوست سے مل گیا۔ صاحبزادے جلدی سے اندر گئے تو دیکھا کہ والدِ محترم وصال
فرما چکے ہیں۔(سیرت بہاؤ الدین
زکریا، ص189مفہوماً)
مزارِ مبارک مدینۃ الاولیاء
ملتان شریف پنجاب پاکستان میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرِّس جامعۃ المدینہ
،ماریشس
Comments