جَنَّتُ الْمَعْلٰی مکۂ مکرمہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً کا قدیم،
مشہورومبارک قبرِستان، اہم تاریخی مقام اور
لاکھوں مسلمانوں کی زِیارت گاہ ہے، ہر سال لاکھوں عاشقانِ رسول یہاں کے مزارات پر
حاضری دے کر فاتحہ و سلام کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
محلِّ وقوع جَنَّتُ الْمَعْلٰی بیتُ اللہ شریف سے قریب ہی تقریباً ایک ڈیڑھ
کلومیٹر کے فاصلے پر حَجُوْن پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، حرم شریف
جانے والے شخص کے دائیں جانب پڑتا ہے، اس
میں ہرخاص و عام مسلمان کو دفنایا جاتا ہے، اِس میں عام طور پر ایسے لوگوں کی میّت
لائی جاتی ہے جن کی نمازِ جنازہ مسجدُ
الحرام میں پڑھی گئی ہو۔
کُّل رقبہ اِس کا کل رقبہ ایک لاکھ مربع میٹر ہے،لیکن اب حَجُوْن پہاڑ کی کٹائی
کرکے اس میں مزید توسیع کا کام جاری ہے۔
مختلف نام اور اُن کی وجہ عرب لوگ عموماً اپنے قبرستانوں کو جنت کہہ کر
پکارتے ہیں اور معلیٰ بلند جگہ کو کہتے ہیں، یہ قبرِستان بھی چونکہ بلندی پرہے اسی
لئے اسے جَنَّتُ الْمَعْلٰی، جَنَّتُ الْمَعْلاۃ، مَقْبَرَۃُ الْمَعْلَاۃ کہا جاتا ہے، بنی ہاشم اور قبیلہ قریش کی قبریں
یہاں ہونے کی وجہ سے اسے مَقْبرۂ بنی ہاشِم، مَقْبرۂ قریش اور شہرِ مکہ میں ہونے
کی وجہ سے اسےمقبرۂ مکہ کہا جاتاہے، چونکہ یہ حَجُوْن نامی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے اسی لیے
اسے حَجُوْن یا مقبرۂ حَجُوْن بھی کہتے ہیں۔
پہلی مَدْفون شخصیت حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جدِّامجد حضرت قصی بن کلاب رضی
اللہ تعالٰی عنہما کا جب وِصال ہوا تو آپ کی تدفین اسی مقامِ حَجُوْن میں کی گئی، یہ یہاں کی سب سے پہلی
قبر تھی بعدازاں لوگوں نے اپنے مُردوں کو یہیں دفنانا شروع کردیا اور یہ جگہ
باقاعدہ قبرستان بن گئی۔
(اِخبارمکہ
للفاکھی،ج 4،ص58، 59)
بعض مدفون شخصیات حضرت سیّدنا عبدُالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ، اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا خَدِیجۃُ الکُبریٰ رضی
اللہ تعالٰی عنہا، (سیرتِ
مصطفیٰ، ص 143) حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لختِ جگر حضرت سیدنا قاسِم وحضرت عبداللہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین۔
(
اِثارۃ
الحجون الی زیارۃ الحجون لمجددالدین فیروزآبادی، المخطوطۃ ماخوذاً)
فضائل جَنَّتُ الْبقیعکے بعد جَنَّتُ الْمَعْلٰی دنیا کا سب سے افضل قبرستان ہے۔ (رفیقُ الحرمین، ص247) حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے جَنَّتُ الْمَعْلٰی کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’یہ کیا ہی اچھا
قبرستان ہے۔‘‘ (مسند احمد،ج 1،ص785، حدیث:3472) ایک بار حَجُوْن کے راستے پر کھڑے ہوکرارشاد فرمایا: ”اِس جگہ سے ستّرہزار ایسے لوگ اٹھائے
جائیں گے جو بغیر حِساب کے جنت میں جائیں گے اور ان میں سے ہرایک ستّر ہزار کی
شفاعت کرے گا، ان کے اَوَّلین وآخرین کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح ہوں گے۔“
(اخبارِ
مکہ للفاکھی،ج 4،ص51، مسند الفِردوس،ج 5،ص260،
حدیث:8123)
فتح مکہ پر اِعزاز فتحِ مکہ کے موقع پر اسی مقامِ حجون پرمسجد الفتح کے قریب سرکار صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سے آپ کا جھنڈا گاڑا گیا۔ (سیرتِ مصطفیٰ، ص430)
خصوصیت جَنَّتُ الْمَعْلٰی کی گھاٹی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس
کا رُخ قِبلہ کی جانب بالکل سِیدھ میں
ہے جبکہ مکّہ کی دوسری گھاٹیوں کا رخ عین قبلہ
کی طرف نہیں ہے۔(اخبارِمکۃ
للازرقی،ج 2،ص209)
حاضری کا طریقہ جَنَّتُ الْمَعْلٰی کے مَدفونِین کی خِدمت میں باہر ہی کھڑے ہوکر سلام عرض کریں اور باہر ہی
سے دعا کریں کہ اب جنت المعلیٰ میں موجود تقریباً تمام مزارات کو شہید کر دیا گیا
ہے، قبروں کی نشاندہی کیلئے لائن سے رکھے گئے پتھرہی نظرآتے ہیں،خصوصاً جَنَّتُ
الْمَعْلٰی کے بیچوں بیچ بنائی
گئی سڑک پر تو چلنے یا گاڑی وغیرہ لے کر جانے کی غلطی ہرگزنہ کریں کہ یہ سڑک بھی
انہیں مزارات کے اوپر بنائی گئی ہے اور’’قبرستان کے بیچ میں قبروں کو منہدم کرکے
جو نیا راستہ بنایا جائے اس پر چلنا شرعاً حرام ہے۔‘‘(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص268ملخصاً)
اگرآپ اندر گئے تو کیا معلوم آپ کا پاؤں کس صحابی یا ولی کے مزار پر پڑ رہا
ہے۔ عام مسلمانوں کی قبروں پر بھی پاؤں رکھنا حرام ہے۔ (رفیقُ الحرمین، ص 236 ملخصاً)
اے ربِّ کریم! ہمیں ایمان و عافیت کے ساتھ شہادت کی
موت اور جنت المعلیٰ میں مدفن عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمہ دار شعبہ فیضان
حدیث،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی
Comments