معاشرے کا چین و سکون، تعمیرو ترقی،فلاح وبہبود اس میں بسنے والے افراد کےاخلاق و کردار کی حفاظت اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کامرہونِ منت ہوتاہے۔اس لئےمختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق(Rights Human)کی حفاظت کے لئے مختلف قوانین رائج ہیں مگر دین ِاسلام کو اِنسانی حقوق کے تحفظ میں سب پر برتری حاصل ہے کیونکہ اسلام وہ واحد مذہب ہےجس نے نہ صرف حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیا بلکہ ان کی ادائیگی نہ کرنے والے کودنیوی و اُخروی طور پر نقصان اور سزا کا مستحق بھی قرار دیا ۔حقوق العباد کو جس قدر تفصیل و تاکید سے اسلام نے بیان کیا ہے، یہ اسی کا خاصہ ہے۔ان حقوق میں والدین، اولاد،زوجین یعنی میاں بیوی، رشتہ دار،یتیم، مسکین، مسافر، ہمسایہ، سیٹھ، نوکر اور قیدی وغیرہ کےانفرادی حقوق کے ساتھ دیگر اجتماعی و معاشرتی حقوق کا وسیع تصور بھی شامل ہے۔حُقُوق العباد کا معنیٰ و مفہوم:حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔(المعجم الوسیط:188) جبکہ حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ان کا تعلق چونکہ بندے سے ہے اسی لئے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 24 ،ص459تا 460ملخصاً) حقوق العباد کی اہمیت: حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوقُ العباد کی ادائیگی درحقیقت راہِ نجات ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کئی مقامات پر حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے، ایک جگہ فرمایا: (وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ) (پ15،بنی اسرائیل:26) ترجمۂ کنزالایمان:اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے اورمسکین اور مسافر کو۔(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حقوق العباد ادا کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّکے نیک اور صالح بندوں کی صفت ہے۔کامل مسلمان ہمیشہ دوسروں کے حقوق دبانے یا انہیں تلف کرنے سے بچتا ہے۔تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمان ہے: مسلمان کی سب چیزیں (دوسرے) مسلمان پرحرام ہیں، اس کا مال،اس کی آبرو اور اس کا خُون۔ (ابوداؤد،ج4،ص354، حدیث:4882)حقوق العبادکی ادائیگی میں غفلت برتنے سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔ ہر کسی کا حق اِسی دنیا میں ہی ادا کرنا آخرت میں ادا کرنے کی نسبت بہت آسان ہے کیونکہ اگرحقوق معاف کروائے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو ایک روپیہ دبانے،کسی کو ایک ہی گالی بکنے، محض ایک بار کے گھورنے،جھڑکنے اور الجھنے کے سبب ساری زندگی کی نیکیوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔مزید یہ کہ صاحبِ حق کے گناہ بھی سر ڈالے جاسکتے ہیں جیساکہ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:جس کے ذِمّے اپنے بھائی کی عزّت یا کسی اور شے کے معاملے میں ظُلم ہو،اُ سے لازِم ہے کہ( قیامت کا دن آنے سے پہلے) یہیں دنیا میں اس سے معافی مانگ لے،کیونکہ وہاں (یعنی روزِ محشر اس کے پاس ) نہ دینار ہوں گے اور نہ دِرْہَم، اگر اس کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی، تو بقَدَر اُس کے حق کے ،اِس سے لے کر اُسے دی جائیں گی، اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اُس(مظلوم ) کے گناہ اِس (ظالم)پررکھے جائیں گے۔(بخاری،ج 2،ص128،حدیث:2449)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ حقوق العباد سے متعلق اسلام کی عطاکردہ روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور حق تلفی کی اس دیمک کا خاتمہ کریں جو ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو بوسیدہ کررہی ہے ۔
حقوق العباد کے متعلق مزید معلومات کے لئے امامِ اہل سنت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےرسالے”والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق“(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔
Comments