سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدمیرے پاس آتا ہے اسے فریزر یا موٹر سائیکل لینی ہے وہ مجھ سے اس کیلئے قرض مانگتا ہے، میں زید سے کہتا ہوں کہ میں آپ کو مارکیٹ سے فریزر نقد لے کر دیتا ہوں، آپ کو جو قسطیں (Installments) اور نفع (Profit) مارکیٹ میں دینا ہے وہ مجھے دے دینا، وہ اس پر راضی ہو کر میرے ساتھ مارکیٹ جاتا ہے، میں اسے نقد میں فریزر یا موٹرسائیکل خرید کر دے دیتا ہوں، اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟ اور جو قبضہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس قبضہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا مجھے وہ موٹرسائیکل ایک دو دن کیلئے گھر لے جاکر پھر زید کو دینی ہوگی؟ یا یہ مراد ہے کہ مجھے اپنے ہی نام کی رسید بنانی چاہئے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت کے مطابق آپ کا پہلے مارکیٹ سے نقد موٹرسائیکل یا فریزر وغیرہ خود خریدنا پھر خرید کر زید کو قسطوں (Installment) پر بیچنا جائز ہے لیکن زید کو بیچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ خریدی گئی چیز پر پہلے قبضہ کریں پھر اسے آگے زید کو انسٹالمنٹ پر بیچیں۔ صرف پرچی کا آپ کے نام بننا قبضہ نہیں کہلائے گا اور بغیر قبضہ کئے آگے بیچنا جائز نہیں۔ درِّمختار میں ہے:”لَایَصِحُّ بَیْعُ مَنْقُوْلٍ قَبْلَ قَبْضِہٖ“ ترجمہ:منقولی (Moveable)چیز کی بیع قبضے سے پہلے درست نہیں ہے۔ (درمختارج،7،ص384)
قبضہ کرنے کے مختلف طریقے فُقَہَاء نے بیان کئے ہیں مختلف اموال کو سامنے رکھ کر قبضہ کا تقاضا پورا کیا جاسکتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں قبضہ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل دو طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں: (1)جس گاڑی میں مال لوڈ (Load) کرکے بھیجا جائے گا وہ گاڑی آپ خود کروائیں اس کا کرایہ بھی آپ ہی ادا کریں اور آپ زید کو پہنچ پر مال بیچیں اس طریقہ کے مطابق جیسے ہی مال گاڑی میں لوڈ ہوگا آپ کے قبضے میں آجائے گا۔ اس کے بعد زید کو یہ چیز آپ فروخت کر دیں اور جہاں پہنچانے کا طے ہو وہاں پہنچا دیں۔ گاڑی کروانے کا جو خرچہ زائد ہوا ہے قیمت طے کرتے وقت اس خرچے کو سامنے رکھ کر قیمت طے کی جا سکتی ہے مثلاً ایک چیز بیس ہزار روپے (20,000) کی بیچنی تھی لیکن مال پہنچ پر دینا ہو تو کرایہ کے خرچے کے پیشِ نظر یہی چیز بائیس ہزار روپے (22,000) کی بھی بیچی جا سکتی ہے۔ (2)قبضہ کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ خریداری کے بعد مال گودام سے نکلوا کر آپ کے سامنے اس طرح رکھ دیا جائے کہ اگر آپ اس پر قبضہ کرنا چاہیں، لے جانا چاہیں تو بآسانی لے جا سکتے ہوں اور آپ کے قبضہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہ شرعی اصطلاح میں تَخْلِیَہ کہلاتا ہے اور یہ بھی قبضہ کے قائم مقام ہے۔ عام طور پر دکان دار کو پیسے ادا کر دئیے جائیں یا اُدھار میں خریداری ہوئی ہو تو بات چیت مکمل ہونے کے بعد دکان دار مال خریدار کے حوالے کر دیتا ہے اس حوالگی ہی کو تَخْلِیَہ کہتے ہیں۔ جب تَخْلِیَہ حاصل ہو جائے تو قبضہ ہوجاتا ہے اور آپ وہ مال آگے فروخت کر سکتے ہیں لیکن تَخْلِیَہ کے تقاضے پورے کرنا عوام کے لئے بہت مشکل ہے اس لئے پہلا طریقہ زیادہ بہتر ہے کہ غلطی کے اِمکانات کَم ہیں۔
بہارِ شریعت میں ہے:”بائِع نے مَبِیْع اور مُشْتَری کے درمیان تَخْلِیَہ کردیا کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے کرسکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانِع نہ ہو اور مَبِیْع و مُشْتَری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہو تو مَبِیْع پر قبضہ ہوگیا۔“(بہارِشریعت ،ج2،ص641، مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
گاہک کو مال کی قیمتِ خرید غلط بتانا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرع ِمتین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا تعلق انڈیا سے ہے اور ہماری مارکیٹ میں چین سے مال آتا ہے اور چین میں کسی چیز کی قیمت مثلاً 10روپے ہے، لیکن اپنی جان پہچان سے ہمیں وہ چیز 9.5 روپے میں ملی، تو کیا گاہَک کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ چین میں اس کا بھاؤ 10روپے ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:اگر صرف اتنا ہی کہے کہ چین میں اس کا بھاؤ 10 روپے ہے تو یہ جائز ہے کہ اس میں کوئی جھوٹ وغیرہ نہیں ہے، ہاں اگر اس نے یوں کہا کہ مجھے 10روپے میں ملی ہے حالانکہ اسے 9.5 (ساڑھےنو) روپے میں ملی تھی، تو اب یہ جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ جھوٹ میں شامل ہوگا اور جھوٹ ناجائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ تَبَارَک وتعالٰی قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)) (پ17، الحج: 30) ترجمۂ کنز الایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
چوری کا مال خرید کر بیچنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید چوری کیا ہوا مال خریدتا اور بیچتا ہے تو یہ بات معلوم ہوتے ہوئے زید سے مال خریدنا اور آگے کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:تقریباً ہر مارکیٹ میں ہی چوری کے مال کی خرید و فروخت کے تعلق سے مسائل پیش آتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن نے چوری کا مال خریدنے کے تعلق سے مُمَانَعت کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں: پہلی یہ کہ یقینی طور پر (Confirm) معلوم ہو کہ یہ مال چوری کا ہے۔ دوسری یہ کہ واضح قرینہ کی بنیاد پر گُمان قائم ہوتا ہو کہ یہ چوری کا مال ہے ان دونوں صورتوں میں خریداری جائز نہیں ہوگی اور ایک تیسری مُمْکِنَہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نہ معلوم تھا نہ ہی قرینہ تھا لیکن خریداری کے بعد پتا چل گیا تب بھی یہ مال مالک کو واپس دینا فرض ہے چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”چوری کا مال دانِسْتَہ (جان بوجھ کر) خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مَظْنُون (گمان) ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کہ اس کے مُوْرِثِیْن بھی جاہل تھے کوئی عِلمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی مِلک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کااستعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارِثوں کو، اور اُن کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فُقَرَاء کو۔“(فتاویٰ رضویہ، ج17،ص165)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
400رکعت نفل
منقول ہے کہ حضرت سیّدنا فَتْح مَوْصِلی علیہِ رحمۃُ اللہِ الْقَوی درد سر میں مبتلا ہوئے تو خوش ہو کر ارشاد فرمایا :”اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس مرض میں مبتلا کیا جس میں انبیائے کرام علیہِمُ السَّلام کو مبتلا کیا،اب اس کا شکرانہ یہ ہے کہ میں 400 رکعت نفل پڑھوں۔“(سیر اعلام النبلاء،ج9،ص179)
Comments