بھیک اور بھکاری (قسط:1)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! انسان جب تک زندہ رہتا ہے ضروریاتِ زندگی مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، بجلی، گیس اور دیگر چیزوں کا محتاج ہوتا ہے، یہ ضروریات اورسہولیات مفت میں نہیں ملتیں بلکہ مال خرچ کرنا پڑتا ہے اور مال کاروبار، نوکری یا محنت مزدوری وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے روزی کمانے کے مواقع سب کو عطا فرمائے ہیں، اب یہ ہم پرہے کہ ان سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں! بہرحال آپ کو بھاری تعداد ایسے مسلمانوں کی ملے گی جو محنت مشقت کرکے، خون پسینہ بہا کر روزی کماتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرتے ہیں، یہ لوگ خوش نصیب ہیں کیونکہ رسولِ اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم سے پاکیزہ ترین کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد ہوا: ہر وہ تجارت جس میں دھوکا نہ ہو اور اپنے ہاتھ کی کمائی۔ (مسند امام احمد، ج6،ص112،حدیث:17266)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسی دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بِلااجازتِ شرعی مختلف انداز میں بھیک مانگ کر دوزخ کے انگارے جمع کررہے ہوتے ہیں، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو شخص مال بڑھانے کے لئے بھیک مانگے تو وہ انگارہ مانگتا ہے اب چاہے کم کرے یا زیادہ۔ (مسلم، ص 401، حدیث: 2399) یعنی بِلا سخت ضرورت بھیک مانگے، بقدرِ حاجت مال رکھتا ہو، زیادتی کے لئے مانگتا پھرے وہ گویا دوزخ کے انگارے جمع کررہا ہے، چونکہ یہ مال دوزخ میں جانے کا سبب ہے اسی لئے اسے انگارہ فرمایا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج3،ص55 )بھیک مانگنا بھی حرام، دینا بھی حرام: مجددِ دین وملت اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضاخان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن لکھتے ہیں: قَوی، تندرست، قابلِ کسب (یعنی کمانے کے قابل) جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے کہ ان کا بھیک مانگنا حرام ہے اور ان کو دینے میں اس حرام پر مدد، اگر لوگ نہ دیں تو جَھک ماریں اور کوئی پیشہ حلال اختیار کریں۔ درِّمختار میں ہے: یہ حلال نہیں کہ آدمی کسی سے روزی وغیرہ کا سوال کرے جبکہ اس کے پاس ایک دن کی روزی موجود ہو یا اس میں اس کے کمانے کی طاقت موجود ہو، جیسے تندرست کمائی کرنے والا اور اسے دینے والا گنہگار ہوتا ہے اگر اس کے حال کو جانتا ہے کیونکہ اس نے حرام پر اس کی مدد کی۔(در مختار مع ردالمحتار،ج 3،ص357، فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص464)ادنیٰ کام کرکے روزی کمانا ،بھیک مانگنے سے بہتر ہے: ہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسروں کے مال پر نظر رکھنے کے بجائے خود رزقِ حلال کمائے، نبیِّ رحمت شفیعِ امّت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اپنی رسّی لے کر پہاڑ کی طرف جائے پھر لکڑیاں اکٹھی کرے اور ان کا گٹھا بنا کر اپنی پیٹھ پر لاد کر بازار میں لے جائے اور انہیں فروخت کر کے اس کی قیمت سے اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے تو یہ اس کے لئے بھیک مانگنے سے بدرجہا بہتر ہے اور یہ مٹّی لے کر اپنا منہ بھرلے تو اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالٰی نے حرام کیا ہے اسے اپنے منہ میں ڈالے۔ ( مسند امام احمد،ج 3ص68، حدیث:7493) یعنی معمولی سے معمولی کام کرنا اور تھوڑے پیسوں کے لئے بہت سی مشقت کرنا بہتر ہے، اس سے عزت نہیں جاتی، مگر بھیک مانگنا بُرا، جس سے عزت جاتی رہتی ہے، برکت ہوتی نہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بھکاری بھیک مانگنے میں بڑی محنتیں کرتے ہیں اگر مزدوری کریں یا چھابڑی فروخت کریں تو ان پر محنت بھی کم پڑے اور آبرو (عزت ) سے بھی کھائیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص56، ملخصاً) چہرے پر گوشت نہ ہوگا: بھیک مانگنے والا دنیا میں تو ذلیل و رسوا ہوتا ہی ہے، بروزِ قیامت بھی اسے رسوائی کا سامنا ہوگا، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم ہے:”آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا۔“(بخاری،ج 1ص497، حدیث: 1474) مراٰۃُ المناجیح میں ہے: یعنی پیشہ وربھکاری اور بِلا ضرورت لوگوں سے مانگنے کا عادی قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے میں صرف ہڈی اور کھال ہوگی گوشت کا نام نہ ہوگا۔ جس سے محشر والے پہچان لیں گے کہ یہ بھکاری تھا، یا یہ مطلب ہے کہ اس کے چہرے پر ذِلَّت و خواری کے آثار ہوں گے، جیسے دنیا میں بھی بھکاری کا منہ چھپا نہیں رہتا، لوگ دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ سائل ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص56)۔۔(بقیہ حصہ اگلے شمارے میں ملاحظہ کیجئے )
Comments