قراٰنِ پاک کے بعدسب سے صحیح ترین کتاب” بخاری شریف“ ہےجسے احادیثِ مبارکہ کا مستند ترین مجموعہ ہونے کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ اِس عظیمُ الشان کتاب کے جلیلُ القَدْر مؤلِّف کا تذکرہ ملاحَظہ کیجئے ۔
بروزجمعہ13شَوّالُ المُکَرَّم، 194ہجری کوسرزمینِ بخارا ایک ایسی شخصیت سے نوازی گئی جس نے بے پناہ ذہانت، اعلیٰ ذوقِ عبادت اورتمام عمراپنی فکری توانائیوں کو رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےفرامین کی حفاظت واشاعت پر صَرْف کرنے کی بدولت دنیا بھر میں ”امام بخاری“کے نام سے شہرت پائی ۔نام ونسب:حضرت سیّدنا امام بخاریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام”محمد “اور کنیت” ابو عبدُاللہ “ہے۔(المنتظم،ج12،ص113)
آپ کے والدِ گرامی حضرت سیّدنا اسماعیل بن ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیّدنا امام مالکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شاگرد اور تلمیذِ امام اعظم ابوحنیفہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکے صحبت یافتہ تھے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کا یہ عالَم تھا کہ اپنے مال و دولت کو شبہات(ایسی چیزیں جن کےحلال و حرام ہونےمیں شُبہ ہو اُن) سے بھی بچاتے۔ بوقتِ وصال آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: میرے پاس جس قدر مال ہےاس میں شبہ والا ایک بھی درہم میرے علم میں نہیں۔(ارشاد الساری،ج1ص55) امام محمدبن اسماعیل بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والدِ ماجد انتقال فرماگئےتونیک اور پرہیز گار والد ہ نے آپ کی تربیت فرمائی۔(فتح الباری،ج1،ص452)حکایت:بچپن میں حضرت سیّدنا امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بینائی چلی گئی جس کی وجہ سے آپ کی والدہ شدید غم سے دوچار ہوئیں، پریشانی کے عالَم میں انہوں نے رو رو کر دعائیں کیں جس کا اثر یوں ظاہر ہواکہ ایک رات جب امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ ماجدہ سوئیں توانہیں خواب میں حضرت سیّدناابراہیم خَلِیلُاللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زیارت ہوئی ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے خوش بخت بیٹے کی بینائی واپس آنے کی خوشخبری سنائی ، صبح وہ خواب حقیقت میں بدل گیا اوراس طرح آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بینائی لوٹ آئی۔ (فتح الباری،ج1 ،ص452) تعلیم و تربیت:جس زمانے میں آپ نے آنکھ کھولی اس وقت گلستانِ علم طرح طرح کے مشکبار پھولوں سے مہک رہا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدس سال کی عمر میں ہی علمِ حدیث حاصل کرنا شروع کیا۔آپ نے ابتدائی زمانے میں ستّر ہزار احادیث یاد فرمائیں۔(ارشاد الساری،ج 1،ص،59،فتح الباری ،ج1،ص452) علمِ دین کے حصول کے لئے آپ نے مکۂ مکرمہ،مدینہ منوّرہ،بصرہ و کوفہ اور مصر و شام کا سفر فرمایا اور ایک ہزار اساتذہ سے علم حدیث حاصل کیا۔ (سیراعلام النبلاء،ج 10،ص 278،تہذیب التہذیب،ج 7،ص43)قابلِ رشک اوصاف و معمولات : امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عیش و عشرت سے کوسوں دور رہتے،شبہات سے بچنا والدِ گرامی سے وراثت میں ملا تھا، حقوقُ العباد کی پاسداری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا موئے مبارک اپنے پاس رکھتے۔ مسجدمیں کوئی خراب چیز پڑی ہوئی دیکھتے تو اسے باہر پھینک دیتے۔ حکایت: ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مسجد میں جلوہ افروز تھے،ایک شخص نے اپنی داڑھی سے تنکا نکال کرمسجد کےفرش پر ڈال دیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اٹھ کر وہ تنکااپنی آستین میں رکھ لیا، جب مسجد سے باہر نکلے تو اسے پھینک دیا۔ (تاریخ بغداد،ج2،ص13)آپ کی غذا بہت کم تھی۔جس چیز کا ارادہ کرلیتے تو قدم پیچھے نہ ہٹاتے زبان کو غیبت سے محفوظ رکھتے، آپ خود فرماتے ہیں :جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ غیبت حرام ہے اس وقت سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ (فتح الباری،ج1،ص454،455) آپ کاذوق ِ عبادت بھی بے مثال تھا،شب بیداری، کثرت سے نوافل کی ادائیگی،ماہِ رمضان میں روزانہ ایک ختمِ قراٰن اور تراویح میں ختم قراٰن آپ کےمعمولات میں شامل تھا۔ (سیر اعلام النبلاء،ج 10،ص303، تہذیب الاسماء واللغات،ج1،ص93) دینی خدمات: امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تمام عمر خدمت ِ حدیث میں گزری۔ آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے”بخاری شریف “ کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی بلکہ اس مبارک کتاب کا پڑھنا تومشکلات حل کرنے کے لئے اکسیر اور قحط سالی کے خاتمے کا سبب قرار دیا گیا۔ (طبقات الشافعیہ الکبریٰ،ج 2،ص234،مرقاۃ المفاتیح، ج1،ص54) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات کا اعتراف ”امیرُالمؤمنین فی الحدیث،امامُ المُسْلِمِیْن، شیْخُ المؤمنین“ جیسےعظیم اَلْقَابات کےذریعے کیا گیا۔ (سیر اعلام النبلاء،ج10،ص293، طبقات الشافعیہ الکبریٰ،ج 2،ص212) بارگاہِ رسالت سے سلام:ایک شخص نے خواب میں نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی: محمد بن اسمٰعیل بخاری کے پاس جانے کا ارادہ ہے۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اسے میری طرف سے سلام کہنا۔(سیر اعلام النبلاء،ج 10،ص305)وصال و مدفن:یکم شَوّالُ المُکَرَّم، 256ہجری کو 62سال کی عمر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا وصال ہوا۔ایک عرصے تک آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی قبر انور سےمشک و عنبر سے زیادہ عمدہ خوشبو آتی رہی۔ سَمَرْقند(ازبکستان) کے قریب موضع خرتنگ(Khartank)میں آپ کا مزارِفائض الانوار ہے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 10،ص319،320)
Comments