امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ

قراٰنِ پاک کے بعدسب سے صحیح ترین کتاب” بخاری شریف“ ہےجسے احادیثِ مبارکہ  کا مستند ترین مجموعہ ہونے کی وجہ سے عالمگیر شہرت  حاصل  ہے۔ اِس عظیمُ الشان کتاب  کے جلیلُ القَدْر مؤلِّف کا تذکرہ ملاحَظہ کیجئے ۔

بروزجمعہ13شَوّالُ المُکَرَّم، 194ہجری کوسرزمینِ بخارا  ایک ایسی شخصیت سے نوازی  گئی  جس نے بے پناہ  ذہانت، اعلیٰ ذوقِ  عبادت اورتمام عمراپنی فکری توانائیوں کو رحمتِ عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےفرامین کی حفاظت واشاعت پر صَرْف کرنے کی بدولت دنیا بھر میں ”امام بخاری“کے نام سے شہرت پائی ۔نام ونسب:حضرت سیّدنا امام بخاریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام”محمد “اور کنیت” ابو عبدُاللہ “ہے۔(المنتظم،ج12،ص113)

آپ کے والدِ گرامی حضرت سیّدنا اسماعیل بن ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیّدنا امام مالکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شاگرد اور تلمیذِ امام اعظم ابوحنیفہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکے صحبت یافتہ تھے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کا یہ عالَم تھا کہ اپنے مال و دولت کو شبہات(ایسی چیزیں جن کےحلال و حرام ہونےمیں شُبہ ہو اُن) سے بھی بچاتے۔ بوقتِ وصال آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: میرے پاس جس قدر مال ہےاس میں شبہ والا ایک بھی درہم میرے علم میں نہیں۔(ارشاد الساری،ج1ص55) امام محمدبن اسماعیل بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والدِ ماجد انتقال فرماگئےتونیک اور پرہیز گار والد ہ  نے آپ کی تربیت فرمائی۔(فتح الباری،ج1،ص452)حکایت:بچپن میں حضرت سیّدنا  امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی  بینائی چلی گئی جس کی وجہ سے آپ کی والدہ شدید غم سے دوچار ہوئیں، پریشانی کے عالَم میں انہوں نے رو رو کر دعائیں کیں جس  کا اثر  یوں ظاہر ہواکہ ایک رات جب امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ ماجدہ سوئیں توانہیں خواب میں حضرت سیّدناابراہیم خَلِیلُاللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زیارت ہوئی ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے خوش بخت بیٹے کی بینائی واپس آنے کی خوشخبری سنائی ، صبح وہ خواب حقیقت میں بدل گیا اوراس طرح آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  بینائی لوٹ آئی۔ (فتح الباری،ج1 ،ص452) تعلیم و تربیت:جس زمانے میں آپ نے آنکھ کھولی اس وقت گلستانِ علم طرح طرح کے مشکبار پھولوں سے مہک رہا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدس سال کی عمر میں ہی علمِ حدیث حاصل کرنا شروع کیا۔آپ نے ابتدائی زمانے میں ستّر ہزار احادیث یاد فرمائیں۔(ارشاد الساری،ج 1،ص،59،فتح الباری ،ج1،ص452) علمِ دین کے حصول کے لئے آپ نے مکۂ مکرمہ،مدینہ منوّرہ،بصرہ و کوفہ اور مصر و شام کا سفر فرمایا اور ایک ہزار اساتذہ  سے علم حدیث حاصل کیا۔ (سیراعلام النبلاء،ج 10،ص  278،تہذیب التہذیب،ج 7،ص43)قابلِ  رشک اوصاف و معمولات : امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عیش  و عشرت سے کوسوں دور رہتے،شبہات سے بچنا والدِ گرامی سے وراثت  میں ملا تھا، حقوقُ العباد کی پاسداری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا موئے مبارک اپنے پاس رکھتے۔ مسجدمیں کوئی خراب چیز پڑی ہوئی دیکھتے تو اسے  باہر پھینک دیتے۔ حکایت: ایک  مرتبہ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مسجد میں جلوہ افروز  تھے،ایک  شخص نے  اپنی داڑھی سے تنکا نکال  کرمسجد کےفرش پر ڈال دیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اٹھ کر وہ تنکااپنی  آستین میں رکھ لیا، جب مسجد سے باہر نکلے تو اسے پھینک دیا۔ (تاریخ بغداد،ج2،ص13)آپ کی غذا بہت کم تھی۔جس چیز کا ارادہ کرلیتے تو قدم پیچھے نہ ہٹاتے زبان کو غیبت سے محفوظ رکھتے، آپ خود فرماتے ہیں :جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ غیبت حرام ہے اس وقت سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ (فتح الباری،ج1،ص454،455) آپ کاذوق ِ عبادت  بھی بے مثال تھا،شب بیداری، کثرت سے نوافل کی ادائیگی،ماہِ رمضان میں روزانہ ایک ختمِ قراٰن اور تراویح میں ختم قراٰن آپ کےمعمولات میں شامل تھا۔ (سیر اعلام النبلاء،ج  10،ص303، تہذیب الاسماء واللغات،ج1،ص93) دینی خدمات: امام بخاری  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   کی تمام عمر خدمت ِ حدیث میں  گزری۔ آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے”بخاری شریف “ کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی بلکہ اس مبارک کتاب  کا پڑھنا تومشکلات حل کرنے کے لئے اکسیر  اور قحط سالی کے خاتمے کا سبب قرار دیا گیا۔ (طبقات الشافعیہ الکبریٰ،ج 2،ص234،مرقاۃ المفاتیح، ج1،ص54) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات کا اعتراف ”امیرُالمؤمنین فی الحدیث،امامُ المُسْلِمِیْن، شیْخُ المؤمنین“ جیسےعظیم اَلْقَابات کےذریعے کیا گیا۔ (سیر اعلام النبلاء،ج10،ص293، طبقات الشافعیہ الکبریٰ،ج 2،ص212) بارگاہِ رسالت سے سلام:ایک شخص نے خواب میں نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی: محمد بن اسمٰعیل بخاری کے پاس جانے کا ارادہ ہے۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اسے میری طرف سے سلام کہنا۔(سیر اعلام النبلاء،ج 10،ص305)وصال و مدفن:یکم شَوّالُ المُکَرَّم، 256ہجری کو 62سال کی عمر  میں آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا وصال ہوا۔ایک عرصے تک  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  قبر انور سےمشک و عنبر سے زیادہ عمدہ خوشبو آتی  رہی۔ سَمَرْقند(ازبکستان) کے قریب موضع خرتنگ(Khartank)میں آپ کا مزارِفائض الانوار ہے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 10،ص319،320)

new-booklet

Share

امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ

حضورنبیِّ رحمت صلّی اللہ تعالٰی علَیْہ واٰلِہٖ وسلّم کے بعد آپ صلّی اللہ تعالٰی علَیْہ واٰلِہٖ وسلّم کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین رِضْوانُ اللہِ تعالٰی علیہِم اَجْمعِیننے زمامِ امّت(یعنی امت کی قیادت) کو سنبھالا اور اپنے گفتار و کردار،  عدل و انصاف اور رہتی دنیا تک جگمگانے والے عظیم کارناموں کےسبب آسمانِ عظمت و شرافت کی زینت بنے۔ انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مقدس دورِ خلافت گزرا۔ ان عظیم ہستیوں کے بعد چشمِ فلک نے جن سربراہانِ مملکت کی عظمتِ کردار کا اعتراف کیا ان میں ایک نام  عظیم مجاہدِ اسلام، عاشقِ رسول نورُالدّین ابوالقاسم محمود بن محمود زنگی رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کا ہے۔ آپ کے کردارِ عالی، جانبازی اور دیگراوصافِ حسنہ کی بدولت تاریخ میں آپ کو الملک العادل، لیثُ الاسلام(اسلام کا شیر) جیسے القابات  سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت: سلطان نورُ الدّین زنگیرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ 17 شوّالُ المکرم، بروز اتوار 511 ہجری کو طلوعِ آفتاب کے وقت پیدا ہوئے۔(وفیات الاعیان،ج 4،ص412) حلیہ مبارکہ آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا قدلمبا، رنگت گندمی،پیشانی کشادہ، آنکھیں بڑی اور سیاہ، داڑھی کے بال بہت کم، چہرہ رُعب دار تھا۔ (الکامل فی التاریخ،ج 10،ص56) باکمال سیرت: مشہور مؤرخ شمسُ الدّین سبطِ ابنِ جوزی  آپ کا تفصیلی  تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:میں نے نورُالدّین رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی سیرت لکھنے میں جس قدر محنت کی ہے ، ان کی سیرت  اور شان و عظمت اس سے کہیں بلند ہے۔ (مراٰۃ الزمان،ج 21،ص203) ان جیسا نہ پایا:امام ابو الحسن علی بن محمد بن محمد عِزّ الدّين ابن اثیر  جزری لکھتے ہیں:میں نے قبلِ اسلام سے آج تک کے بادشاہوں کی سیرت و  تاریخ کا مطالعہ کیا، خلفائے راشدین اورحضرت عمر بن عبدالعزیزرِضْوانُ اللہِ تعالٰی علیہِم اَجْمعِین کے بعد سلطان نورالدین زنگیرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ سے بڑھ کر حسنِ سیرت اورعدل و انصاف والا کسی کو نہ پایا۔(مراٰۃ الزمان،ج21،ص 205) عادات واوصافِ عالیہ: آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ باجماعت نماز ادا فرماتے، روزوں کی پابندی کرتے، تلاوتِ قراٰن کرتے، اوراد  و وظائف پڑھتے،اُون کا لباس پہنتے، کتابت  کر کے اور غلاف بناکر رزقِ حلال کماتے، جائے نماز اور قراٰن پاک ہمیشہ ساتھ رکھتے،کبھی فحش (بے ہودہ ) گفتگو نہ فرماتے، یہاں تک کہ جس نے بھی آپ کے ساتھ سفر و حضر میں وقت گزارا کبھی بھی آپ کی زبان سے کوئی فحش لفظ نہ سنا، خواہ خوش ہوں یا غصّے کی حالت میں۔  تکبّر و غرور سے اِجتناب فرماتے،  آپ کو دیکھنے والا آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی جلالتِ شان و رُعب کی وجہ سے ہیبت زدہ رہتا لیکن جب آپ سے کلام کرتا تو آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی عاجزی و نرم کلامی سے حیران رہ جاتا۔(سیر اعلام النبلاء،ج 15،ص242،241،ملخصاً) زندگی میں کبھی بھی ریشم اور سونا و چاندی نہ پہنا۔(مراٰۃ الزمان،ج21،ص205) عاجزی اور تَوَکُّل عَلَی اللہ : آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ عاجزی کرنے والے اور تواضع پسند طبیعت کے مالک تھے۔ قطبِ نیشا پوریرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے شوقِ شہادت اورجذبۂ جہاد کو دیکھتے ہوئے کہا: خدا کے لئے اپنی جان سے بے پرواہی نہ برتیے، اگر آپ شہید ہوگئے تو مسلمانوں کا کیا ہوگا۔ آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے کمال عاجزی سے فرمایا: محمو د کون ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں ایسا کہا جائے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے مجھ سے پہلے بھی  ان شہروں کی حفاظت فرمائی  ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔(سیراعلام النبلاء،ج 15،ص243) علم اور علما سے محبت: آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ بہت ہی علم دوست تھے، علما اور صالحین کی ہم نشینی اختیار کرتے، ان کی زیارت کو جاتے اور ان کا بہت ادب بجا لاتے تھے۔ آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ مذہبِ حنفی کے جید عالم تھے۔ بکثرت مطالعہ کرتے تھے۔ احادیثِ کریمہ سنتے اور روایت کرتے تھے۔ (سیراعلام النبلاء،ج 15،ص241،242ملخصاً) آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہکے رعب و دبدبہ کے سبب مالداروں اور سرداروں میں سے کوئی بھی  آپ کے پاس نہ بیٹھ سکتا تھا، لیکن جب بھی کوئی فقیر، عالم  یا کسی فن کا جاننے والا آتا تو آپ خود کھڑے ہوکر استقبال کرتے، اپنے پاس بٹھاتے اور انعام و اکرام سے نوازتے۔(مراٰۃ الزمان،ج21 ،ص209) میلاد النبی منانے والے سے محبت و الفت: سلطان نورالدّین زَنگی رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ موصل کے بہت بڑے عالمِ دین اورصوفی حضرت عمر المَلَّاء رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ سے بہت محبت رکھتے تھے اور اکثر خط و کتابت جاری رکھتے تھے۔ یہ بزرگ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہہرسال میلادالنبی بڑے اہتمام سے منایا کرتے تھے جس میں موصل کا امیر اور بڑے بڑے اکابر بھی حاضر ہوتے تھے۔ (مراٰۃ الزمان،ج21،ص208)  نیکی کر دریا میں ڈال: موصل(عراق) کی مسجد”الجامع النوری“ کی عمارت بہت شکستہ ہو چکی تھی، حضرت عمر المَلَّاء رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے سلطان نورالدّین زَنگیرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہسے تعمیر کی بات کی۔ انہوں نے تعمیر شروع کروادی، جس پر تین سال کا عرصہ لگا اور تقریباً تین لاکھ دینار صرف ہوئے، تعمیر مکمل ہونے  پر سلطان نورالدّین زنگیرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ خود موصل تشریف لائے، اس میں نماز ادا فرمائی، خطیب و مؤذن کی تقرری کی، قالین اور چٹائیاں بچھوائیں۔ ایک دن سلطان نورالدّین زَنگیرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے تھے کہ شیخ عمر المَلَّاء رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہتعمیر پر ہونے والے اخراجات  کا رجسٹر لے آئے اور سلطان سےحساب کتاب  دیکھنے کا کہا۔ آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہنے کہا: اے شیخ!ہم نے یہ کام اللہ تعالٰی کے لئے کیا ہے، اس کا حساب بھی اللہ ربُّ العزّت کے حوالے کرتے ہیں، یہ کہہ کر رجسٹر پکڑا اور دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔(مراٰۃ الزمان،ج 21،ص208) بیت المال کی حفاظت: کھانے، پینے اور پہننے وغیرہ کے معاملات میں اپنے ذاتی مال کے علاوہ کبھی تصرف نہ فرماتے، کبھی بھی بیت المال سے اپنے لئے کچھ نہ لیتے بلکہ مالِ غنیمت سے جو حصّہ ملتا اسی پر گُزَر بَسر کرتے۔ (مراٰۃ الزمان،ج21،ص205)  (حکایت):ایک بار آپ کی زوجہ نے آپ سے خرچے کا مطالبہ کیا، آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے انہیں تین دوکانیں دیں(کہ ان کے کرایہ وغیرہ سے گزارا کریں) تو انہوں نے کم ہونے کی شکایت کی، آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے   فرمایا: میرے پاس تو بس یہی ہے، بیت المال مسلمانوں کا خزانہ ہے اور میں اس کا صرف خزانچی ہوں۔ میں اس میں خیانت کرکے جہنّم میں  غوطہ نہیں لگا سکتا۔ (مراٰۃ الزمان،ج 21،ص205ملخصاً)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے چالیس مقبول بندے: حدیث پاک میں ہے کہ شام میں چالیس ابدال ہوتے ہیں جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی جگہ دوسرے شخص کوبدل دیتا ہے ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں، ان کے ذریعہ دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے(مسند امام احمد،ج 1،ص238، حدیث:896) بعض بزرگوں نے سلطان نورالدّین زَنگی رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو ان چالیس ابدال میں  شمار کیا ہے۔ (مراٰۃ الجنان، ج3،ص292) شوقِ شہادت: آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہشہادت کا بہت شوق رکھتے تھے، اسی لئے میدانِ جہاد میں پیش پیش رہتے، آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہکے کاتب ابوالیُسر فرماتے ہیں کہ آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میرا حشر درندوں  کے پیٹوں اور پرندوں کے پوٹوں سے فرما۔(سیراعلام النبلاء،ج15،ص241)  وصال باکمال: آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا وصال 11شوال المکرم، بروز بدھ 569ہجری کو دمشق کے قلعہ میں ہوا۔ (وفیات الاعیان،ج 4،ص412) منقول ہے کہ  آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اپنے وصال کے سال صدقہ وخیرات کی کثرت کی، مساجد کی تعمیر اور فی سبیل اللہ وقف بہت زیادہ کئے۔ آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی زندگی کا اکثر حصّہ جہاد میں گزرا لیکن شہادت نہ ملی، اس کےباوجود لوگوں نے آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو ”نورُالدّین الشہید“ کہہ کر یادکیا۔(سیراعلام النبلاء،ج15،ص243، 244)آپرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی قَبْر مُبارکہ پر بھی نورالدین الشہید لکھا ہواہے۔ قبر پر دعاؤں کی قبولیت:آپ رحمۃُاللہِ تعالٰی علیہکی قبرمدرسۃ النُّوریہ،سُوقُ الخَیّاطِین قدیم دمشق  میں ہے۔ ابنِ خلکان لکھتے ہیں:  میں نے اہلِ دمشق کی ایک جماعت سے  سنا ہے کہ نورُالدّین زَنگیرحمۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی قبر مُبارکہ پر دُعائیں قبول ہوتی ہیں، پھر میں نے خود اس کا تجربہ کیا تو اس بات کو صحیح پایا۔ (وفیات الاعیان،ج4،ص412)


Share