تاریخ اوراق
غزوۂ احد
محمد عباس عطاری مدنی
ماہنامہ شوال المکرم 1438
2ہجری کو غزوۂ بدر میں شکست کھانے کے بعدکفارِ مکہ انتقام کی آگ میں جَل رہے تھے چنانچہ اگلے ہی سال 3 ہجری ماہِ شوال المکرم میں انتقام کا یہ لاوا اُبل پڑا جس کے نتیجے میں غزوۂ اُحُد پیش آیا۔ (السیر والمغازی لابن اسحاق ، ص 324) اس جنگ میں کفارِ مکہ بڑے جوش وجذبے سے آئے تھے ، آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ، زبانوں پر انتقام! انتقام! کے نعرے تھے۔ لشکروں کی تعداد : “ غزوۂ اُحُد “ میں مشرکوں کی تعداد تین ہزار اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافق بھی شامل تھے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ، 3 / 221) منافقوں کی علیحدگی : منافقوں کا سردار عبْدُاللہ بن ابی بظاہر مسلمان مگر دل سے کافر تھا ، مدینہ منوّرہ سے نکلتے وقت تو یہ مسلمانوں کے ساتھ تھا لیکن “ شَوْط “ نامی مقام پر اپنے 300 ساتھی لے کر سازش کے تحت الگ ہوگیا ، یوں اسلامی لشکر کی تعداد 700 ہوگئی۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ، 3 / 220 تا 221) 70صحابۂ کرام کی شہادت : یہ پہاڑی جنگ تھی ، آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لشکر ا سلام کی پشت پر پچاس تیر انداز مقرر کئے اور فرمایا : “ جب تک میرا حکم نہ آجائے تم نے یہاں سے نہیں ہٹنا “ جنگ کی ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہااور کفار فرار ہوگئے تو تیر انداز مجاہدین سمجھے کہ جنگ ختم ہوگئی ہے ، کفار شکست کھا کر بھاگ گئے ہیں اب وہ واپس نہیں آئیں گے ، لہٰذا اکثر تیر اندازوں نے غلط فہمی کی بناء پر مورچہ چھوڑ دیا ، کافروں نے مسلمانوں کی پشت خالی دیکھی تو یکدم پیچھے سے حملہ کیا جس سے افراتفری پھیل گئی ، 70 صحابہ شہید ہوگئے ، حضرت سیِّدُنا امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ (تفسیر بغوی ، 1 / 280 ، سبل الہدی والرشاد ، 4 / 256)رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرۂ انور زخمی ہوا : اس جنگ کے دوران امام الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رُخِ انور زخمی ہوگیا اور سامنے والے ایک دانت مبارک کا تھوڑا سا کنارہ بھی شہید ہوا (تاریخ الخمیس ، 1 / 430)صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرضوان کی حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کسی دلیل کی محتاج نہیں ، جب جانِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زخمی ہوکر زمین پر جلوہ فرما ہوئے تو ہر طرف بے چینی پھیل گئی ، صحابۂ کرام کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دیدار نہیں ہو رہا تھا! اسی دوران شیطان نے افواہ اُڑادی کہ (مَعَاذَاللہ) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم شہید ہوگئے ہیں ، اس آواز سے مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے۔ (تفسیربغوی ، 1 / 280 تا 281 ملخصاً) صحابۂ کرام کی جانثاری : پھر جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے ہوئے اور سب کو معلوم ہوا کہ شہادت کی خبر جھوٹی تھی تو کفار نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر تیروں کی بوچھاڑ کردی ، حضرت ابو دُجَانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے آگے ڈھال بن گئے ، حضرت زیاد بن سَکَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ چند انصاریوں کو لے کر بڑھے ، اپنی جانیں قربان کردیں لیکن کسی کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قریب نہ آنے دیا۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام ، الجزء الثالث ، ص 71 تا 72) الغرض! غزوۂ احد میں صحابۂ کرام نے جانثاری کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج بھی اوراقِ تاریخ پر جگمگا رہی ہیں۔
حُسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں اَنگشتِ زَناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب
Comments