چاند رات کی قدر کیجئے!

ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادخوشی کے لمحات کو اللہ تعالٰی کی نافرمانی کے کاموں میں گزار دیتی ہے، حالانکہ ہمیں ملنے والی خوشی،راحت، فرحت اور آسائش یہ سب اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہیں اور نعمت ملنے پر تو شکر کرنا چاہیے کیونکہ یہ نعمتوں میں اضافے کا سبب بنتاہے۔ قراٰن کریم میں ہے(لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ) (پ13، ابراہیم:7) ترجمہ کنز الایمان: اگر احسان مانوگے تو میں تمہیں اور دونگا۔(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  شکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ رب تعالی کی نافرمانی سے بچا جائےلیکن کیا کیجئے کہ نعمت ملنے پر خوشی منانے کے لئے عام دنوں کی نسبت زیادہ گناہ کئے جاتے ہیں۔ یاد رہے!اسلام ہمیں  خوشی منانے سے منع نہیں کرتا لیکن خوشی منانے کا طریقہ ایسا ہو جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ناراض کرنے والاکوئی کام نہ ہو۔مگر افسوس!اب تو حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ شادی بیاہ کا موقع ہو تو اللہ کی نافرمانی، عید کے ایام ہوں تو اللہ کی نافرمانی، بچے کی ولادت ہو تو اللہ کی نافرمانی، کاروبار کے آغاز کی تقریب ہو تو اللہ کی نافرمانی، اس پر طُرّہ یہ کہ ان تقریبات میں شراب وکباب، رقص و سرود، لَہْو و لَعْب میں پڑنے کے ساتھ تسکینِ نفس کے لئے حیاسوز کام کرنا،یہ سب اللہ تعالٰی کے غضب کو دعوت دینا نہیں تواور کیا ہے! کیا نعمتوں کا حق یہی ہے کہ ان پر ربِّ کریم کی نافرمانی کی جائے؟ اللہ تعالٰی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ”عید“ بھی ہے۔بدقسمتی سے ایک تعداد اس عظیم نعمت کو اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں میں گزار تی ہے۔ حالانکہ عید کے بہت فضائل ہیں۔ خصوصاً اس کی چاند رات جسے ”لَیْلَۃُ الْجَائِزَۃ یعنی انعام کی رات“ کہا گیا ہے، اس کی تو خاص طور پر قدر کرنی چاہئےاور اپنا مُحاسَبَہ کرنا چاہئے کہ ہم نے ماہِ رمضان  میں کیا کیا نیک عمل کئے؟ ہم نے اِس ماہ میں اللہ تعالٰی کی چھماچھم برستی رحمتوں اور برکتوں سے کتنا کچھ پانے کی کوشش کی؟کیا ہم نے ایسے کام کئے کہ جن کے سبب اپنی مغفرت کی امید باندھیں؟ اس رات کو  خاص طور پر استغفار اور دعاؤں میں گزارنا چاہئےاور ماہِ رمضان کو غفلت میں گزارنے پر ندامت کے آنسو بہانے چاہئیں، اور اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں سے بچنا چاہئے۔مگر افسوس! معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، اس رات بازاروں اور شاپنگ مالز (Shopping Malls)میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اس قدر اختلاط(یعنی میل جول) ہوتا ہے کہ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ! رش (Rush)کے بہانے مرد و عورت کے شانے سے شانے ٹکراتے ہیں، گرل فرینڈ اور بوائےفرینڈ ایک دوسرے کے لیے تحائف خریدتے ہیں، لڑکیاں بے پردہ گھومتی ہیں،مہندی لگوانے اور چوڑیاں پہنانے کے نام پراجنبی مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنی شرم و حیا کا جنازہ نکال دیتی ہیں۔ چوڑیاں پہنانے والے بھی اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: کسی شخص  کے سر میں لوہے کی کنگھی ہڈی تک گاڑ دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کا جسم کسی ایسی عورت سے چھو جائے جواس کے لئے حلال نہ ہو۔ (شعب الایمان، ج4ص،374، حدیث:5455) صد کروڑ افسوس! بے حیائی کا یہ طوفان رمضان شریف کا مقدس مہینا گزرنے کے چند گھنٹے بعد ہی بپا ہوجاتا ہے اور یہ سب کام عیدمنانے کے نام پر کئے جارہے ہوتے ہیں۔میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہےکہ چاند رات (لیلۃ الجائزہ) کی قدر کیجئے ،نیک اعمال کی کثرت کرکے رب تعالیٰ سے مغفرت اور رحمت کے انعامات پانے کی کوشش کیجئے، عید کے دن بھی گناہوں سے بچئے، سنتِ مصطفے کے مطابق نمازِ عید ادا کیجئے، رشتہ داروں سےصلۂ رحمی، غریبوں کےساتھ غم خواری کیجئے، یوں عید کا دن بھی اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری میں گزار ئیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share