بیٹی کیوں پیدا ہوئی؟

اسلام اور عورت

بیٹی کیوں پیدا ہوئی؟

*اُمِّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء

زمانۂ جاہلیت میں جب کسی شخص کی بیوی کے ہاں بچے کی ولادت کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ شخص بچہ پیدا ہو جانے تک اپنی قوم سے چھپا رہتا، پھر اگر اسے معلوم ہوتا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ خوش ہوجاتا اور اپنی قوم کے سامنے آ جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو وہ غمزدہ ہو جاتا اور شرم کے مارے کئی دنوں تک لوگوں کے سامنے نہ آتا اور اس دوران غور کرتا رہتا کہ اس بیٹی کے ساتھ وہ کیا کرے؟ آیا ذلت برداشت کر کے ا س بیٹی کو اپنے پاس رکھے یا اسے زندہ دفن کر دے جیسا کہ مُضَر، خُزَاعہ اور تمیم قبیلے کے کئی لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔([1])

لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے، فِی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں شرم محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا پھوٹ نکلی ہے۔

کراچی میں ایک بیٹی کی شادی ہوئی، 11 ماہ بعد بیٹی ہوئی۔ اسی بات پر اسے مارا جانے لگا اور بالآخر گھر سے نکال دیا گیا۔ لاہور میں ایک بیٹی کی شادی ہوئی، ساس کا مطالبہ تھا کہ بیٹا ہی ہونا چاہئے لہٰذا زبردستی حمل میں الٹراساؤنڈ کروایا جس میں بیٹی تشخیص ہوئی تو بے چاری خاتون پر ظلم شروع کردیا گیا جیسے جنس کا طے کرنا کسی عورت کے بس کی بات ہو۔

یہاں تک کہ جب ولادت ہوئی تو ہونے والی بچی پر بھی ظلم و ستم کیا گیا تین دن کی بچی پر برف کا کٹورا رکھ دیا کہ کسی طرح مر جائے۔ جب کچھ بس نہ چلا تو ساس نے جو خود بھی ایک عورت ہی ہے بیٹے کو کہہ کر زبردستی اپنی بہو کو طلاق دلوادی۔

حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کے کئی فضائل ہیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک اس کے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ایک کمزور دوسری کمزور سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا تو قیامت کے دن تک اس کی مدد کی جائے گی۔([2])

 حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ پاک اسے جنت میں داخل کرے گا۔([3])

بیٹی تو اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے۔پیارے آقا کریم تو اپنی بیٹی سےبہت محبت فرماتے تھے حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کو آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب خاتُونِ جنَّت حضرت فاطمۃُ الزہراء رضی اللہُ عنہا حُضُور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضِر ہوتیں۔ تو آپ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے اور ان کا ہاتھ پکڑتے اس پربوسہ دیتے اور اپنی جگہ ان کو بٹھاتے۔([4])

اے کاش! پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر عمل کرنے کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔

وہ شاخ ہے نہ پھول اگر تتلیاں نہ ہوں

وہ گھر بھی کوئی گھر ہے جہاں بچیاں نہ ہوں

بیٹی کی قدر کی جائے تو وہ بہت محبت کرنے والی ہوتی ہے۔ ماں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک کریں اسی طرح ساس سسر گھر میں آنے والی بہو کو بیٹی جیسا مان اور عزت دیں تو نہ صرف گھر امن و سکون کا گہوارہ بنا رہے گا بلکہ یہ بیٹی اپنی اولاد کو بھی اپنی ساس اور سسر کی عزت و تکریم اور پیار ومحبت کا درس دے گی جس سے نسلیں سنور جائیں گی۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور بہو کو اپنانے کے بجائے ظلم وستم کا برتاؤ کیا جائے توساس کو سوچ لینا چاہئے کہ میرے اس طرزِ عمل سے کسی اور کی ایک بیٹی نہیں بلکہ اس سے وابستہ افراد کی دنیا ویران ہونے کے ساتھ آپ کا خاندان بھی اجڑ جائے گا۔

خواتین کی ایک تعداد ہے کہ جب بیٹے کی شادی ہوتی ہےتو بیٹے کی محبت تقسیم ہونے کے بعدوہ اس کو برداشت نہیں کر پاتیں اور بیٹے کا رجحان بہو کی طرف زیادہ دیکھ کر بہو سے حسد کرتی ہیں۔ اور وہ بہوکے خلاف بیٹے کے کان بھرتی رہتی ہیں۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں اپنی بیوی کے لئے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔پھر وہ اپنی بیوی کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچاتا ہے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح نَنْد بھائی کی محبت تقسیم ہوجانے پر بھائی کے کان بھرتی رہتی ہےاور یہ بھول جاتی ہے کہ اسے بھی کسی گھر کی بہو بننا ہے، اگر اس کے ساتھ بھی یہ ہی سب معاملات ہوں تو اسے کیسا لگے گا؟

ہم دینِ اسلام کے ماننے والے ہیں، اسلام تو امن و آشتی، تکریم ِ انسانی اور احترامِ مسلم کا درس دیتا ہے۔ انسان تو انسان جانوروں پر بھی ظلم کرنے سے منع کرتا ہے۔ اے کاش ہمیں اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر اپنانے کا جذبہ مل جائے اور ہم ان تمام باتوں سے اپنے آپ کو بچا کر شریعت کے عین مطابق زندگی گزارنے میں کامیاب ہوجائیں۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([1])خازن، النحل، تحت الآیۃ:59، 3/127، 128ملخصاً

([2])معجم صغیر، 1/30

([3])ابوداؤد،4/435،حدیث:5146

([4])ابوداؤد، 454/4، حدیث:5217۔


Share

Articles

Comments


Security Code