حضرت سیّدنا ابوموسیٰ اَشْعَری رضیَ اللہُ عنہ

ایک مرتبہ سرکارِ نامدار، شہنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک گھر کے پاس سے گزر ے تو کوئی شخص بڑی خوش اِلحانی اور دل سوزی کے ساتھ قراٰنِ مجید کی تلاوت کررہا تھا۔ دونوں مقدس ہستیوں نے کچھ دیر ٹھہر کرتلاوتِ قراٰن کو سنا پھر اپنے قدم آگے بڑھادئیے۔ اگلے دن جب وہی صحابی رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: گزشتہ رات میں تمہارے گھر کے پاس سے گزرا، میرے ساتھ عائشہ بھی تھیں، اس وقت تم اپنے گھر میں قراٰنِ مجید کی تلاوت کررہے تھے۔ ہم دونوں تمہاری قراءَت سننے کےلئے ٹھہر گئے ،صحابیِ رسول عرض گزار ہوئے: یَارسولَ اللہ! اگر مجھے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی موجودگی کا علم ہوتا تو میں اور بھی زیادہ اچھی آواز سے تلاوت کرتا۔(مستدرک ،ج4،ص586، حدیث:6020)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!یہ صحابیِ رسول رضی اللہ عنہ جو اپنی خوبصورت، دلکش اور دل نشین آواز کی بدولت اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی توجہ پانے میں کامیاب ہوئے وہ حضرت سیّدُنا عبداللہ بن قیس ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ذاتِ بابرکت ہے۔ جن کے متعلق خود حضور رحمت ِعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ابو موسیٰ کو آلِ داؤدکی خوش آوازی میں سے حصہ دیا گیا ہے۔(مسلم، ص310، حدیث: 1852) حضرتِ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ سے فرمائش کیا کرتے کہ ہمیں ہمارے رب کا پاک کلام سناؤ تو آپ رضی اللہ عنہ اپنی مسحور کن آواز میں قراٰنِ مجید کی تلاوت شروع کردیتے۔(مصنف عبد الرزاق،ج 2،ص321، حدیث: 4190)

جن دنوں آپ رضی اللہ عنہ نے شام میں رہائش اختیار فرمائی تو حضرتِ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امورِ سلطنت سے فارغ ہوکر گھر سے نکلتے اور آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر تلاوتِ قراٰن سُنا کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء ،ج 4،ص45)

فرمانِ مصطفےٰ پرعمل کا جذبہ: ایک روز آپ حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور دروازہ کھٹکھٹایا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مشغول تھے، آپ نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن کوئی جواب نہ آیا تو ملے بغیر چلے گئے۔ بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا تو عرض گزار ہوئے کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے یہ فرمان سنا ہے کہ تین مرتبہ اجازت طلب کرو اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک، ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔(مسلم،ص 915، حدیث: 5631)

سخت گرمی میں روزے: ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ سمندری سفر پر تھے، ہوا بہت خوشگوار تھی لہٰذا بادبان اٹھادئیے گئے سَفینہ بڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا کہ اچانک ایک آواز آئی:اے سفینہ والو!رکو! میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں ،آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا یہاں تک کہ وہ آوازمسلسل سات مرتبہ سنائی دی ، بالآخر میں نے کہا:تم کون ہو اور کہاں ہو؟ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس حالت میں ہیں اور رُک نہیں سکتے، جواباً آواز آئی:کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھی ہے ، میں نے کہا:کیوں نہیں!ضرور بتاؤ، اس نے کہا:اللہ نے اپنے ذمہ ٹھہرالیا ہے کہ جواس کی رضا کی خاطر گرمی کے دن اپنے آپ کو پیاسا رکھے گا تو وہ اسے قیامت کے دن سیراب کرے گا۔اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ شدید گرمی کے دن کی تلاش میں رہاکرتے تھے اور جب اسے پالیتے تو روزہ ضرور رکھا کرتے تھے۔(تاریخ ابن عساکر ،ج 32،ص87)

علمی مقام:آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان خوش نصیب صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں ہوتا ہے جو زمانۂ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہی لوگوں کو دینی مسائل بتایا کرتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کی بُردبار ی اور علمی پختگی کو دیکھتے ہوئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یمن کے ایک حصہ پر حضرت سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اور دوسرے حصے پر آپ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر کیا۔(بخاری،ج3،ص120، حدیث: 4341،مختصر تاریخ دمشق،ج 13،ص233)

قراٰن پڑھانے کا انداز: آپ رضی اللہ عنہ بصرہ میں روزانہ علمی و نورانی محفل سجایا کرتے تھے چنانچہ صبح کی نماز سے فارغ ہوکرلوگوں کو اپنی جگہ ٹھہرنے کا حکم فرماتے پھر صفوں کو نئے سرے سے ترتیب دے کر ایک ایک شخص کو قراٰن پڑھاتے اور آگے بڑھ جاتے۔(مختصر تاریخ دمشق ،ج13،ص243)

حفاظ کے اجتماع سے بیان: ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے کم و بیش 300 حفاظ ِکرام کو جمع کیا اور قراٰنِ مجید کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:بے شک !یہ قراٰنِ مجید تمہارے لئے اجر وثواب کا ذریعہ ہے لیکن یہ تم پر بوجھ بھی بن سکتا ہے، اس لئے تم قراٰنِ مجید کی اِتِّباع کرو، اسے اپنا تابِع نہ بناؤ کیونکہ جو قراٰنِ مجید کی اتباع کرتا ہے قراٰنِ پاک اسے جنت کے باغات میں پہنچادیتا ہے اور جو قراٰنِ مجید کو اپنا تابع بناتا ہے قراٰن پاک اسے گُدی کے بل جہنم میں دھکیل دیتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء،ج1،ص323 بتغیر)

تاریک جگہ غسل: آپ رضی اللہ عنہ کی ذات جہاں خوفِ خدا سے لرزاں و ترساں رہتی تھی وہیں شرم و حیا کا پیکر بھی تھی، چنانچہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اللہ سے حیا کی وجہ سے بہت تاریک جگہ میں غسل کرتا ہوں اور سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے کپڑے پہن لیتا ہوں ۔(حلیۃ الاولیاء،ج1،ص327)

پردے کا اہتمام: آپ رضی اللہ عنہکے پاس ایک چھوٹی چادر ہواکرتی تھی جسے آپ سونے سے قبل اپنے جسم کے نچلے حصے پرباندھ لیا کرتے تھے تاکہ دورانِ نیند ستر ظاہر نہ ہوجائے۔(تاریخ ابن عساکر ،ج32،ص91)

ملکی خدمات:حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کو بصرہ کی گورنری عطا فرمائی جسے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں کچھ عرصہ برقرار رکھا پھر سرزمین ِکوفہ کی گورنری کا پروانہ جاری فرمادیا۔آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انتظامی معاملات سے الگ ہوگئے اور ملکِ شام تشریف لے گئے ۔

مال جمع نہ کیا: حضرت سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی 63 سالہ زندگی میں کئی جگہ گورنری اور دیگر عہدوں پر فائز رہے لیکن اپنے لئے نہ تو کوئی جائیداد بنائی اور نہ ہی مال جمع کیابلکہ بڑی سادگی کے ساتھ پوری زندگی گزاردی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب آپ کو بصرہ کی گورنری کاپروانہ ملا تو داخل ہوتے وقت سیاہی مائل سفید اونٹ پر سوار تھے، اور 10سال سے زیادہ عرصہ گورنری کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد 29ہجری میں بصرہ سے روانہ ہوئے تو اِسی اونٹ پر سوار تھے۔(سیر اعلام النبلاء ،ج 4،ص50،البدایۃ والنہایۃ ،ج5،ص236)

وصالِ باکمال: بالآخر ایک قول کے مطابق سن 44ہجری ماہ ذی الحجۃ الحرام میں علم و عمل اور تقویٰ و پرہیز گاری کا یہ آفتاب اپنی زندگی کی کرنوں کو سمیٹتے ہوئے دنیاوالوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا(یعنی آپ کا انتقال ہوگیا )۔(تاریخ ابن عساکر،ج 32،ص100)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

حضرت سیّدنا ابوموسیٰ اَشْعَری رضیَ اللہُ عنہ

 شرم و حیا، سادگی اور عاجزی جیسی بہترین خوبیوں والے،اتباعِ سنّت کے جذبے اور خوفِ خدا سے لبریز دل پانے والے تیسرے خلیفہ امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا ذو النّورین عثمانِ غنی رضیَ اللہ عنہ نے سِن35 ہجری 18ذوالحجۃ الحرام جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد جامِ شہادت نوش کیا۔(معرفۃ الصحابہ،ج1،ص85، معجم کبیر،ج 1،ص77)آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد جہاں اُمّتِ مُسْلمہ کی دنیا و آخرت اور عوامُ النّاس کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لئے کارنامے سرانجام دیئے وہیں رُشد و ہدایت کے دریا بھی بہائے ، جن میں سے چند نکات یہ ہیں:

٭لوگو! تم ایک ختم ہوجانے والے گھر میں رہتے ہو اور زندگی کا باقی حصّہ گزار رہے ہو لہٰذا موت آنے تک جس قدر نیکیاں کرسکتے ہو جلدی کرلو، تم صبح کرو یا شام یاد رکھو! دنیا دھوکے میں لپٹی ہوئی ہے لہٰذا دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور بڑا فریبی شیطان ہرگز تمہیں اللہ کے حِلْم کی (صفت کی) وجہ سے فریب میں نہ ڈالے۔

٭مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور باقی رہنے والی اچھی باتیں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور امّید کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں۔(پ15، الکھف: 45، 46،تاریخ طبری،ج2،ص589)

٭(نگرانوں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے فرمایا:) مجھے خطرہ ہے کہ تم لوگ خزانہ بھرنے میں مصروف ہوجاؤ گے اور امت کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرو گے، اگر ایسا کرو گے تو یاد رکھو کہ حیا، امانت اور وفا (معاشرے سے) ختم ہوجائے گی، سُن لو! بہترین انصاف یہ ہے کہ مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے معاملات میں غور و فکر کرو، جو ان کاحق ہے انہیں ضَرور دو اور جو ان پر حق نکلتا ہے اسے ضَرور لو۔ (تاریخ طبری،ج 2،ص590)

٭امانت دیانت داری (کا نام) ہے اس پر قائم رہنا اور خیانت کرنے والوں میں سب سے پہلے نہ بن جانا ورنہ بعد میں آنے والوں میں جو بھی خیانت کا مرتکب ٹھہرے گا تم اس کے ساتھ (گناہ میں) شریک ہوجاؤ گے پورے حق کی ادائیگی کرنا خیرخواہی ہے، معاہدہ کرنے والوں اور یتیموں پر ظلم مت کرنا کہ جس نے ان پر ظلم کیا اسے بروزِ قِیامت اللہ پاک کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔(تاریخ طبری،ج 2،ص591)

٭(عوام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:) تمہیں اطاعت اور پیروی کرنے کا حکم ہے لہٰذا اپنے معاملات میں دنیا کی طرف ہرگز مائل نہ ہوجانا ۔(تاریخ طبری،ج 2،ص591)

٭اے لوگو! یقیناً اللہ پاک نے تمہیں دنیا اس لئے عطا فرمائی ہے کہ تم اس کے ذریعے آخرت کی تیاری کرو، اس لئے عطا نہیں کی کہ تم اس کی طرف جھک جاؤ مزید فرمایا: اللہ پاک  سے ڈرتے رہو کیونکہ خوفِ خدا عذاب کے آگے ڈھال اور اللہ پاک کی بارگاہ میں وسیلہ ہے۔ حقوقُ العباد کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، ایک گروہ بَن کر رہو، ٹکڑوں میں نہ بٹ جاؤ، اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔(شعب الایمان،ج 7،ص369)

اللہ کریم ہمیں امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے ان فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی چ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share