میری معلومات کے
مطابق دنیامیں بارہ اَرب لوگوں کےلئے اَناج دَسْت یاب ہوجاتاہے جبکہ دنیا کی آبادی
ساڑھے سات اَرب بتائی جاتی ہے، اس کےباوجود 2 اَرب سے زیادہ لوگ وہ ہیں جنہیں پیٹ
بھر کر کھانانہیں ملتا اورکئی تو بھوک کی
وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں، ان میں ایک بھاری تعداد بچوں کی بھی شامل ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک اِطلاع کے مطابق تین سے چار اَرَب لوگوں کا
کھانا ضائع کردیا جاتا اور پھینک دیا جاتا ہے۔
سِتَم ظریفی:ایک شخص اپنا واقعہ بڑےہی
تفریحی انداز میں بیان کررہا تھا کہ ہم لوگ ”باربی کیو“بنا)یعنی گوشت کے ٹکڑوں کوآگ
کےکوئلوں پر بُھون( رہے تھے، ہمیں بُھوننا توآتا نہیں تھا، لہٰذاوہ جَل کر کوئلہ ہوگئے اور کسی کے کھانے کے قابل نہ رہے۔(الامان والحفیظ) پیارے اسلامی بھائیو!
اس طرح کے ”باربی کیو“ بالخصوص عیدِ قُرْباں کےبعد گھروں کی چھتوں، تفریح گاہوں
اورنہ جانے کہاں کہاں ہوتے ہیں! اس میں کچھ گوشت تو پکتا اور استعمال ہوتا ہےجبکہ
کچھ جَل جاتا ہوگا، عام طورپرکھانے کا انداز بھی یہ ہوتا ہےکہ کچھ کھایا کچھ
پھینکا اور کچھ ویسےہی ضائع کردیا، یہی گوشت اگر جَلنے، ضائع ہونے اورپھینکے جانے سے پہلےہی کسی غریب
کے پیٹ میں چلا جاتا تو دینے والوں کو دعائیں تو ملتیں۔
”مِثالی معاشرہ “ کیسے بنےگا؟ جب ایک ہی محلے یا
بلڈنگ میں ایک گھر کے افراد تو پیٹ بھر کر کھائیں پئیں اور آسائشوں میں رہیں جبکہ
دوسرےگھر کےافراد بھوکے ہوں۔ ان کے حالات کا علم ہوتےہوئے بھی ہم ان کی حتّی الوسع
مدد نہ کریں! ہمارے فریج قربانی کےگوشت اور کھانے پینے کی دیگر چیزوں سے بھرے ہوئےہوں
مگر ہمارے غریب رشتہ دار اور پڑوسی دو وقت کے کھانے کے لئے ترس رہے ہوں،ان حالات
میں ہمارا مُعاشَرہ کیسے مِثالی بن سکتا ہے !
غریب کا اندازِ زندگی: ہمارےہاں لوگوں کی ایک بھاری تعداد غُربَت کی زندگی گزار
رہی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ آمدنی کا کم ہونا بھی ہے، اس لئےان کا گزر بَسربہت
مشکل سے ہوتا ہے۔ آٹھ، دس، پندرہ یا بیس ہزار روپے سیلری میں پورا مہینا گھر کےلئے دودھ، سبزی، راشَن خریدنا، بجلی اور
گیس کابِل ادا کرنا،پھر اگر کرائے کےمکان
میں رہتےہیں تو اس کا کرایہ! ٹرانسپورٹیشن (یعنی آنے جانے) کا خرچہ کیسے پورا ہوتا ہوگا؟مشاہدات
ومعلومات ہیں کہ ایسے لوگ عام طور پر بیس بائیس تاریخ تک خالی ہاتھ ہوجاتے ہیں، اس
کے بعد گھر چلانے کے لئے اُدھار کا سہارا لیتے ہیں، سبزی، دودھ اور راشن والے سے
یہ کہہ کرکہ ” پہلی تاریخ تک سیلری ملے گی تو پیسے دے دیں گے“ کچھ نہ کچھ اَشیاء لیتے
رہتے ہیں، یوں یہ لوگ مہینے کے آخری دنوں میں بڑی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو دھکّا
دیتے ہیں، ان کی زندگی کے اَیّام میں کچھ
دن ایسے بھی آتے ہیں کہ گھرکاکوئی فردبیمار ہوجاتاہے مگر ان کے پاس دوا لینے
کےپیسےنہیں ہوتے، اگر ہوتے ہیں تویہ سوچ کردوا نہیں لے پاتے کہ دیگر گھریلو
اخراجات کیسے چلیں گے؟
غریب کی پریشانی بڑھنےکاایک
سبب: بعض
اوقات سیٹھ صاحب یا افسر سیلری بناتے بناتےچھ سات تاریخ یا اس سے بھی آگے تک
معاملہ لے جاتےہیں، اس دوران اگر ملازم ہمّت کرکےتنخواہ جلدی دینے کی بات کر لے تو
جواب ملتا ہے”اتنی بھی کیا جلدی !‘‘ حالانکہ اکثر ملازمین مہینا ختم ہونے سے پہلے ہی آزمائش میں آچکے ہوتے ہیں۔ ورلڈ
لیول پر دیکھا جائے تو یہ سامنے آتا ہے کہ عموماً امیر لوگوں کی تعدادکم، مِڈل
کلاس اور سفید پوش لوگوں کی تعداد ان سے زیادہ اور غریبوں کی تعداد ان دونوں سے
زیادہ ہوتی ہے۔
غریبوں کی مدد کے حوالے سے
چند گزارشات:مُخَیَّر اور مالدارحضرات سے گزارش ہےکہ اللہ پاک کی رضا کےلئے کم
سیلریز والے اور مَعاشی طور پر کمزور افراد کی مدد کیجئے ☆مثال کے طور پراگر آپ
کی آمدنی ایک لاکھ روپے جبکہ آپ کے گھر وغیرہ کاخرچہ 70 ہزارروپے ہے اور ماہانہ 30
ہزار روپے آپ کےپاس بچ جاتے ہیں، جنہیں آپ سیونگ کے نام پررکھ لیتے ہیں کہ آزمائش کےوقت کام آئیں
گے، تو کیا سیونگ صرف دنیاہی کے لئے کرنی ہے آخرت کے لئے نہیں کرنی؟ کیا ضرورت
صرف دنیا میں ہی پڑسکتی ہے، قبروآخرت میں ضرورت نہیں پڑے گی؟اللہ
آپ کو
ہمت دے کہ اس 30 ہزار میں سے پانچ ہزار ہی نکال لیا کریں
اور یہ رقم غریب گھرانے یا دو گھروں میں ماہانہ 2500،2500دے دیں ☆ یا کسی دکاندار کو کہہ
دیں کہ ماہانہ فلاں فلاں گھر میں میری طرف سے راشَن بھیج دیا کرو، یاخود ہی کسی
غریب کے گھر پہنچادیا کریں ☆ہوسکے تو کھانا پکا کر غریبوں کو کھلائیں، اپنا یا بچوں کا بَچا ہوا دینے کے بجائے الگ سے
کھانا تیارکرکے انہیں دیں ☆ورنہ گھر میں جو پکا ہو اسی میں سے غریبوں کے لئے نکال
لیا کریں ☆استعمال کیا ہوا بھی ضائع کرنےکے بجائے اگر کسی غریب کو دےدیں تو آپ کی
مہربانی ہوگی،آپ کا دیا ہوا کھانا جب کسی غریب کے گھر جاتاہےتو بعض اوقات کئی
بھوکوں کے پیٹ بھر جاتے ہیں اور دعاؤں کےلئے ہاتھ اُٹھ جاتے ہیں، اگریہ عمل بھی
آپ نے جاری رکھا اوراللہ پاک نےچاہاتواس سےآپ کاگھر ہرا بھرا رہے گا ☆کھاتے پیتے گھرانوں
کی ایسی اولاد جسے گھر سے ایک اچھی رقم ماہانہ جیب خرچ کے لئے ملتی ہے، ان سے بھی (جو بالغ ہیں) گزارش ہےکہ ساری رقم
اپنی ذات پرخرچ کرنے کے بجائے کچھ بچاکر
غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں، ان کاساتھ دیں اور پھر ڈَنکے بھی نہ بجائیں اور بِلاضرورت
کسی کونہ بتائیں کہ میں فلاں کی مدد کرتا ہوں، اگر آپ کسی غریب کو چند روپے دیتے
ہیں توان پیسوں سے آپ اس کی عزّت نہیں خرید لیتے کہ لوگوں میں بتاتے پھریں کہ میں
اس کو پیسے دیتاہوں۔
غریبوں کوکہاں ڈھونڈیں؟ انہیں تلاش کرناکوئی
مشکل نہیں، یہ آپ کے آس پاس، رشتہ داروں اور خاندان میں بھی ہوتے ہیں، بہر حال اگر آپ کے اندر
غریبوں کی مددکرنے کا جذبہ ہوگا تویہ خودہی
آپ کی راہنمائی کرےگا اورآپ مستحق اور سفیدپوش افراد کو ڈھونڈ کرانہیں قربانی
کاگوشت پہنچانے اور اس کے علاوہ دیگر کئی معاملات میں ان کی مدد کرنے میں کامیاب
ہوسکیں گے۔
راہِ خدامیں خرچ کرنے اور ایثار
کرنے کی فضیلت:دو فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:(1) ربّ تعالیٰ ارشادفرماتا
ہے: اے ابنِ آدم! اپنا خزانہ (صدقہ کرکے) میرے حوالے کردے نہ جلے گا نہ ڈوبے گا اور نہ
چوری ہوگا
(قِیامت کےدن)تیری شدید حاجت کے وقت تجھے لَوٹادوں گا۔ (الترغیب و الترھیب،ج2،ص10، حدیث:30) (2)جو شخص اُس چیز کو جس کی
خود اِسے حاجت ہو دوسرے کو دیدے تو اللہ پاک اِسے بخش دیتا ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین،ج9،ص779)
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہےکہ صرف عیدِقرباں کےموقع پرہی نہیں بلکہ زندگی بَھر غریبوں کی مدد کرنےکی نیّت کریں، اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے آپ کامال بڑھے گا گھٹے گانہیں، غربت وتنگدستی کاخوف نہ کریں، بُخْل کوختم کریں اورسخاوت و ایثارکاجذبہ پیدا کریں، اللہ پاک نے چاہا تو برکت آپ خود دیکھیں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments