مویشیوں میں انویسٹمنٹ کا شرعی طریقہ

مویشیوں میں انویسٹمنٹ کا شرعی طریقہ

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم پچیس ہزار کا جانور خریدتے ہیں اور کسی کو پالنے کے لئے دے دیتے ہیں، جب وہ جانور بڑا ہوجاتا ہے تو اس کو بیچ کر آدھے پیسے پالنے والا لے لیتا ہے اورآدھے پیسے خرید کر دینے والا۔ کیا یہ اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یہ طریقہ کار جائز نہیں، کیونکہ یہاں جانور کو پالنے والا جو کام کررہا ہے اس کی اجرت میں ابہام ہے۔عام طور سے جانوروں میں دو افراد کے مشترکہ کام میں ایک کے جانور ہوتے ہیں اور دوسرا ان کو پال کر اپنی آمدنی کا ذریعہ پیدا کرتا ہےلیکن شرعی خرابی سے بچتے ہوئے درست طریقہ کار اپنا کر کام کریں تو شرعی طور پر ان کا معاہدہ اور آمدنی جائز ہو سکتی ہے۔

اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ جانور میں پالنے والے کو بھی مالک بنالیں یعنی جانور آدھا اسے کسی طویل المدت اُدھار میں بیچ دیں۔ اب چونکہ اس جانور کے دونوں مالک ہیں لہٰذا اس کے جو بھی منافع ہوں گے، یونہی اس کو فروخت کرنے پر جو رقم حاصل ہوگی وہ دونوں کے درمیان مشترک ہوگی۔ اس کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ جانور خریدا گیا بیس ہزار کا، جس نے خریدا اس نےاس جانور کی ملکیت میں دس ہزار روپے سے دوسرے شخص کو یعنی جس نے جانور پالنا تھا اس کو شامل کرلیا، اگرچہ پالنے والے کے پاس فوری طور پر اس ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں جو جانور کا مالک بننے پر اس کو کرنی ہے لیکن چونکہ یہ سودا اُدھار میں ہوا ہے لہٰذا یہ اس کی ادائیگی بعد میں کرے گا اور اُدھار کی مدت ایسی ہونی چاہیے کہ اندازاً جب جانور بیچنا ہو اس کے آس پاس کی ہو مثلاً معلوم ہے کہ دو سال بعد بیچیں گے تو دو سال کی مدت رکھ لیں۔ اب مثلاً دو سال بعد یہ جانور اَسی ہزار کا فروخت ہوا، چالیس چالیس ہزار روپے دونوں میں تقسیم ہوئےاور پالنے والے نے دس ہزار روپے اپنے اُدھار کی مد میں ادا کردئیے۔ یوں تیس ہزار روپے اس کو نفع ہوگیا۔ اس دوران اگر جانور کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کے مالک بھی دونوں افراد ہوں گے۔ اس مسئلے میں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جانور پالنے والا اگر خرید کر چارہ کھلاتا ہے تو اس کا خرچہ صرف اُسی پر نہیں ڈالا جائے گا بلکہ دونوں افراد پر آئے گا۔

بہار شریعت میں ہے:”ایک شخص کی گائے ہے اس نے دوسرے کو دی کہ وہ اسے پالے چارہ کھلائے نگہداشت کرے اور جو بچہ پیدا ہو اس میں دونوں نصف نصف کے شریک ہوں گے تو یہ شرکت بھی فاسد ہے بچہ اس کا ہوگا جس کی گائے ہے اور دوسرے کو اسی کے مثل چارہ دلایا جائے گا،جو اسے کھلایا اور نگہداشت وغیرہ جو کام کیا اس کی اجرتِ مثل ملے گی. . . . اس کے جواز کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ گائے بکری مرغی وغیرہ میں آدھی دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں اب چونکہ ان جانوروں میں شرکت ہوگئی بچے بھی مشترک ہوں گے۔“(بہار شریعت،ج 2،ص512)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اخراجات کا جعلی بل بنواکر کمپنی سے زائد رقم وصول کرنا

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں جس کمپنی میں نوکری کرتا ہوں وہاں کام کے سلسلے میں سفر زیادہ کرنا پڑتاہے، دورانِ سفر اگر کسی ہوٹل میں رکنا پڑے تو کمپنی نے مجھے پابند کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پندرہ سو روپے سے دو ہزار روپے تک والے ہوٹل میں ٹھہرنا ہے، اگر میں کسی کم ریٹ والے ہوٹل میں ٹھہرتا ہوں مثلاً اس کا ریٹ پانچ سو سے سات سو روپے ہے اور میں پندرہ سو کا بل بنواتا ہوں تو کیا یہ جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر آپ کی کمپنی یہ رقم بطورِ الاؤنس آپ کو دیتی ہے کہ آپ کہیں بھی رہیں چاہے فٹ پاتھ پر سوئیں یا ہوٹل میں ٹھہریں یا کسی اور جگہ رہیں آپ کو ہر صورت میں پندرہ سو روپے ملیں گے تب تویہ الاؤنس لینا جائزہوگا اور اس کے لئے آپ کو بل بنوانے کی بھی ضرورت نہیں۔

لیکن آپ کا بل بنوانا اس بات کی علامت ہے کہ آپ کی کمپنی میں یہ اصول نہیں ہے بلکہ کمپنی نے دو ہزار روپے تک کی حد رکھی ہے کہ اس میں جتنا خرچہ ہوگا کمپنی آپ کو دے گی، اگر ہزار ہوا تو ہزار دے گی، پندرہ سو ہوا تو پندرہ سو دے گی، ایسی صورتحال میں آپ کا جتنا خرچہ ہوا اس سے زائد کا بل بنواکر کمپنی سے زیادہ رقم وصول کرنا جائز نہیں بلکہ آپ خیانت کرنے والے کہلائیں گےاور جو زائد رقم وصول کریں گے وہ مالِ حرام ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پرچیزر(Purchaser)کو رشوت دینا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی دکان کا ملازم ہمارے پاس کوئی چیز خریدنے آئے اورہم ہر مرتبہ اسے بیس تیس روپے خرچے کے طور پر دے دیں تاکہ وہ آئندہ ہم سے ہی خریدے تو ایسا کرنا کیسا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یہ رشوت ہے کیونکہ آپ اس کو پیسے اسی لئے دے رہے ہیں تاکہ وہ آپ ہی سے چیز خریدے کسی اور سے نہ خریدے، یہ پیسے دینا جائز نہیں۔

پوچھے گئے سوال سے ملتی جلتی ایک صورت کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن لکھتے ہیں:”بیع تو اس میں (اسٹیشن پرسودا بیچنے والے) اور خریداروں میں ہوگی، یہ (اسٹیشن پر سودا بیچنے کا ٹھیکہ لینے والا) ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں، دوسرانہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج 19،ص558)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پروموشن پر ٹریٹ دینے کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آفس میں پروموشن(Promotion) پر ٹریٹ (Treat) دینی پڑتی ہے، کیا یہ جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پروموشن وغیرہ پر یا ویسے ہی اگر دوست آپس میں مل کر رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو کھانا کھلاتے ہوں تو جائز ہے،کبھی کسی نے کھانا کھلا دیا کبھی کسی نے کھلا دیا آپس میں انڈراسٹینڈنگ (Understanding)سے یہ معاملہ ہوتا ہے تو کوئی حرج نہیں جبکہ ایک دوسرے کو عار نہ دلائی جائے ایک دوسرے کو شرمندہ نہ کیا جائے۔

ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ نہ کھلانے پر دیگر کی طرف سے عار دلائی جائے گی شرمندہ کیا جائے گا اور کھلانے والا شرمندگی سے بچنے کے لئے مجبوراً کھلاتا ہےتو یہ کھانا رشوت کے حکم میں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭دارالافتاء اہل سنت نور العرفان ،کھارا در ،باب المدینہ کراچی


Share

مویشیوں میں انویسٹمنٹ کا شرعی طریقہ

خریداری کرتے وقت جھوٹ وغیرہ سے بچ کر تکرار و اِصرار کرکے سستا خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاجر اپنی چیز کا ریٹ زیادہ بتائے،یہ جائز ہے مگر جھوٹ نہ بولے کہ ”مجھے اتنے کا پڑتا ہے یا اتنے کی خرید ہے“ اور زیادہ دام بتا کر کمی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، چنانچہ امام ابنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:آدمی اپنے سامان پر جتنی چاہے قیمت لکھ کر لگا دے، اور اپنے متعلق فرماتے ہیں:میں اپنے سامان پر (زیادہ) رقم لکھ کر اس لئے لگاتا ہوں تاکہ میں بھاؤ تاؤ کروں پھر آپ لکھی ہوئی رقم سے کم قیمت میں سامان بیچ دیا کرتے تھے مثلاً رقم 10 لکھی ہے تو 9میں بیچ دیتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج 5،ص134، حدیث:3) اسی طرح گاہک کو بھی چاہئے کہ سامان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرے، دام کم کرائے اور یہ کمی کرانا ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت بھی ہے۔

بھاؤ میں کمی کرانا سنّت ہے حضرت سیِّدُنا سُوَیْد بن قَیْس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا مَخْرَفَہ عَبْدِی رضی اللہ عنہ کے ساتھ (تجارت کی غرض سے شراکت کے طور پر) مقامِ ہَجَر سے کپڑا لے کر مکّۂ معظمہ آیا، ہمارے پاس رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے، آپ نے ہم سے پاجامہ خریدنے کیلئے بھاؤ تاؤ کرکے اس کی قیمت طے کی، ہم نے اسے آپ کو بیچ دیا۔ وہاں اُجرت پر (درہموں کو) تولنے والا ایک شخص موجود تھا، اس سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (ان درہموں کو) تول دو اور کچھ زیادہ تولنا۔ (ابو داؤد،ج 3،ص 332، حديث: 3336)

نقصان بُرا اور احسان اچّھا ہے اُس دور میں چونکہ آج کی طرح نوٹ نہیں ہوتے تھے بلکہ درہم کا عام رواج تھا جن کے گننے میں بہت وقت لگتا تھا اس لئے تول کر دئیے جاتےتھے۔ اس حدیث سے ہم غریبوں کےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضل و کرم کا پتا چلتا ہے کہ طے شدہ سے زیادہ قیمت عطا کی، مہنگی خریدنے میں نقصان ہے اور طے شدہ سے زیادہ دینے میں احسان۔ نقصان بُرااور احسان اچّھا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ خود دکان پر جانا اور تاجر کی منہ مانگی قیمت نہ دینا بلکہ اس سے طے کرنا کچھ کم کرانا سنّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 4،ص304 ملخصاً) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بھاؤ (میں کمی) کے لئے حجّت (یعنی بحث و تکرار) کرنا بہتر ہے بلکہ سنّت، سوا اس چیز کے جو سفرِحج کے لئے خریدی جائے اس (سفرِحج کی خریداریوں) میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دے دے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 17،ص128)

عقل کا نقصان ایک تاجر حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس سے بھاؤ تاؤ کرنے لگے تو تاجر نے کہا:مجھے تو آپ کے بارے میں کچھ اور ہی معلوم ہوا ہے! آپ نے پوچھا: تمہیں کیا پتا چلا ہے؟ اس نے کہا:مجھے تو آپ کےفضل و کرم کے بارے میں معلوم ہوا ہے، آپ نے فرمایا: چھوڑو! فضل و کرم تو بغیر کسی عوض(یعنی بدلے) کے خود سے ہی ہوتا ہے اور جس عمل سے عقل کا نقصان لازم آئے تو وہ میں نہیں کروں گا۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا،ج7،ص465، رقم:284)

اسی طرح ایک بار حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ پاک تشریف لائے تو ایک یہودی سے اس کا سامان خریدنے کے لئے بھاؤ تاؤ کرنے لگے اورپانچ لاکھ درہم پر آکر رک گئے لیکن وہ چھ لاکھ پراِصرار کرنے لگا، آپ نے 50ہزار کا اور اضافہ کردیا، اس نے کہا: اے امیرُ المؤمنین! مجھے تو یہ پتا چلا ہے کہ آپ ایک مجلس میں کسی کو 10لاکھ تک دے دیا کرتے ہیں جبکہ مجھ سے خریدنے میں بحث وتکرار کر رہے ہیں! آپ نے فرمایا: اِس میں میری عقل (کے نقصان) کا معاملہ ہے،تم مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو! رہا ایک مجلس میں کسی کو زیادہ پیسے دینا تو وہ بھلائی کا کام ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج7،ص466، رقم:289)

دھوکا کھانے والا قابلِ مذمت امام ابنِ ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس بات پر غصہ میں نہ آئے کہ اس سے کہا جائے: فلاں تجھ سے زیادہ عقل مند ہے جب وہ فلاں شخص خرید و فروخت میں اسے دھوکا دے کیونکہ خرید و فروخت ایک الگ چیز ہے اور کسی کے ساتھ بھلائی دوسری چیز ہے۔(یعنی آدمی مہنگی چیز خرید کر یہ نہ سمجھے کہ میں نے بیچنے والے کے ساتھ بھلائی کی ہے بلکہ یہ تو بے وقوفی ہے،کسی چیز کے خریدنے میں ممکنہ حد تک کمی کرانی چاہئے)(موسوعہ ابن ابی الدنیا،ج7،ص465، رقم:285)

حضرت سیِّدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(مہنگی چیز خریدکر) دھوکا کھانے والا شخص نہ تو قابلِ تعریف ہے اور نہ ہی اس پر اسے کوئی اجر و ثواب ملے گا۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج7،ص465، رقم:283)

غریبوں اور کمزورں سے مہنگا خریدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کمزور (مثلاً عورت یا بوڑھے وغیرہ) یا فقیر (یعنی غریب و محتاج) سے کوئی چیز خریدے تو اس پر آسانی کرتے ہوئے اس سے مہنگی چیز خریدے، یہ نیکی کا کام ہے اور ایسا شخص اس فرمانِ مصطفےٰ کا مِصداق ٹھہرے گا کہ ”اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے اور خریدنےمیں آسانی کرے۔“(مسندابی يعلیٰ،ج6،ص50،حديث:6795ملتقطاً) اور اگر کسی مالدار تاجر سے خریداری کرے اور وہ ضَرورت سے زیادہ نفع لے تو اس سے زیادہ قیمت میں لینا کوئی قابلِ تعریف بات نہیں بلکہ یہ تو بغیر کسی تعریف اور اجر و ثواب کے اپنا مال ضائع کرنا ہے۔(مزید فرماتے ہیں) کمال یہ ہے کہ بندہ نہ تو کسی کو دھوکا دے اور نہ ہی خود دھوکا کھائے۔امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ایک خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ خود بھی کسی کو دھوکا نہیں دیتے تھے اور اتنے سمجھدار تھے  کہ کوئی آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا تھا۔(احیاء العلوم،ج2،ص102،103ملخصاً)

اللہ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں خرید تے وقت سنّت کی نیّت سے بھاؤ میں کمی کرانے کی تو فیق عطا فرمائے اور غریبوں اور کمزوروں پر احسان کرتے ہوئے ان سے مہنگا خریدنے کی سعادت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تکبیرِ تَشْریق

نویں(9)ذُوالِحجۃ الحرام کی فجر سے تیرھویں (13) کی عَصْر تک پانچوں وقت کی فرض نمازیں جو مسجد کی جماعتِ اُولی کے ساتھ ادا کی گئیں ان میں ایک بار بُلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے اور تین بار افضل۔(تبیین الحقائق،ج1،ص227)اسےتکبیرِ تشریق کہتے ہیں اور وہ یہ ہے: اَللہاَکْبَرُ ط اَللہ ُاَکْبَرُ ط لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ وَ اللہ اَکْبَرُ ط اَللہ اَکْبَرُ ط وَلِلّٰہِ الْحَمْد ط۔ (تنویر الابصار مع ردالمحتار،ج 3،ص71)تکبیرِ تشریق کا پس منظر مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَویفرماتے ہیں: تکبیرِتشریق حضرت جبریل، حضرت خلیل(حضرت ابراہیم علیہ السَّلام )، حضرت اسماعیل (علیہ السَّلام) کے کلاموں کا مجموعہ ہے کہ جب حضرت جِبرِیل جنّت سے دُنبہ لے کر حاضر ہوئے،اُدھر خلیل اپنے لختِ جگر کو ذَبْح کرنے لگےتو(حضرت جبریل نے) اوپر سے پکارا:اَللہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر حضرت خلیل نے اوپر دیکھا تو جبریل کو آتے دیکھ کر فرمایا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر،پھر بحکمِ پروردگارعَزَّ وَجَلَّ حضرت اسماعیل کے ہاتھ پاؤں کھولے اور قَبولیّتِ قربانی کی بِشارت دی تو آپ(یعنی حضرت اسماعیل علیہ السَّلام) نے فرمایا: لِلّٰہِ الْحَمْد۔(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص88)

تکبیرِ تشریق کے متعلق مزید احکام جاننے کے لئے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب”نماز کے احکام“صفحہ 447پڑھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code