جنّت کیا ہے؟ جنّت ایک مکان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے بنایا ہے، اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا، جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لئے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے کو جنّت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔ (بہار شریعت،ج 1،ص152)
جنّت کو جنّت کیوں کہتے ہیں؟ عَرَبی میں جنّت ایسے گھنے باغ کو کہتے ہیں جس میں درختوں کی وجہ سے زمین چھپی ہوئی ہو۔ مسلمانوں کو بروزِ قِیامت ملنے والے گھر کو جنّت کہنے کی مختلف وجوہات ہیں: (1) جنّت میں باغات ہیں (2) وہ دنیا میں نگاہوں سے چھپی ہوئی ہے (3) عالَمِ غیب میں سے ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج 9،ص576 ماخوذاً)
اسلامی عقیدہ: جنّت برحق ہے جس کا منکر کافر ہے، یوں ہی جو شخص جنّت کو تو مانے مگر اس کے نئے معنیٰ گھڑے (مثلاً ثواب کے معنیٰ اپنی حسنات کو دیکھ کر خوش ہونا) وہ حقیقۃً جنّت کا منکر ہے اور ایسا شخص بھی کافر ہے۔ (الشفا،ج 2،ص290، بہار شریعت،ج 1،ص150، 151) جنّت پیدا ہوچکی ہے اور اب بھی موجود ہے، یہ نہیں کہ ابھی تک پیدا نہ ہوئی اور بروز قیامت پیدا کی جائے گی۔ (منح الروض الازہر، ص284 ماخوذاً)
جنتیوں کی اقسام: جنتی افراد کی تین قسمیں ہوں گی:کَسبی، وَہبی، عطائی۔ (1)کسبی جنتی وہ ہیں جو اعمال کی برکت سے جنّت میں جائیں گے، (2)وہبی وہ جو کسی جنتی کے طفیل جنّت میں جائیں گے جیسے مسلمانوں کے چھوٹے بچے اور (3)عطائی جنتی وہ مخلوق ہوگی جو اللہ پاک جنّت کو بھرنے کے لئے پیدا فرمائے گا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 7،ص475، 476 ماخوذاً)
جنّت کن کی خواہش مند ہے؟ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنّت چار شخصوں کی مشتاق ہے، (حضرت) علی بن ابی طالب، (حضرت) مِقْداد، (حضرت) عَمّار اور (حضرت) سلمان (رضی اللہ عنہم)۔ (معجم کبیر،ج 6،ص، حدیث: 6045)
جنتیوں کی سب سے بڑی نعمت:جنتیوں کو سب سے بڑی نعمت دیدارِ خداوندی حاصل ہوگی حدیثِ پاک میں ہے: اللہ کریم اپنا پردہ([1]) اُٹھا دے گا اور انہیں کوئی چیز دیدارِ خداوندی سے زیادہ محبوب نہ دی گئی ہوگی۔ (ترمذی،ج4،ص248،حدیث:2561)اللہ پاک کے نزدیک عزت و اکرام والا وہ ہوگا جو صبح و شام زیارتِ خداوندی سے مشرف ہوگا۔(ترمذی،ج 4،ص249، حدیث:2562)
جنّت کیسی ہے؟ مالکِ جنّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنّت کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہے، اس کا گارا خالص مُشْک کا ہے، اس کی بجری موتی اور یاقُوت کی ہے، اس کی مٹی زعفران ہے، جو اس میں داخل ہوگاخوش رہے گا کبھی غمگین نہ ہوگا، ہمیشہ رہے گا کبھی نہ مَرے گا، اس کے کپڑے نہ گلیں گے اور نہ ہی ان کی جوانی فنا ہوگی۔ (ترمذی،ج 4،ص236، حدیث: 2534) جنّت کی چوڑائی ایسی ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے ورق (کاغذ کے پیپر) بنا کر باہم ملا دیئے جائیں تو جتنے وہ ہوں اتنی جنت کی چوڑائی ہے۔(تفسیر خزائن العرفان، پ 27، الحدید، تحت الآیۃ:21، ص 997 ملخصاً) جنتی چوکھٹوں میں سے دو چوکھٹوں کا درمیانی فاصلہ چالیس سال کی راہ ہے۔ (مسلم، ص1213، حدیث:7435)
جنتی خیمہ: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک جنّت میں ایک کھوکھلے موتی کا خیمہ ہوگا جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے، اس کے ہر گوشہ میں اس کے گھر والے ہوں گے کہ دوسرے گوشے والوں کو نہ دیکھ سکیں گے، اور مؤمنین ان کے پاس چکر لگائیں گے۔ (بخاری،ج 3،ص344، حدیث: 4879)
جنّت کی منزلیں: حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنّت میں سو منزلیں ہیں ہر دو منزلوں کے درمیان فاصلہ ایسا ہے جیسے آسمان و زمین کے درمیان اور فردوس اعلیٰ درجہ ہے جس سے جنّت کی چاروں نہریں پُھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر عرش ہے تو تم جب بھی اللہ سے مانگو تو اس سے فردوس مانگو۔ (ترمذی،ج 4،ص238، حدیث: 2538)
جنتی درخت: جنتی درختوں کا تنا سونے کا ہوگا۔(ترمذی،ج 4،ص235، حدیث: 2533) حدیثِ مبارکہ میں جنتی درخت کی وُسعت بیان کی گئی ہے کہ اس کے سائے میں ہزار سال تک کوئی سوار چلتا رہے تب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ (ترمذی،ج 4،ص235، حدیث:2532)
جنتی حوروں کا کلام: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت میں حورِ عین کی محفل سجتی ہے اور حوریں اپنی آوازیں بلند کرتی ہیں ایسی آواز مخلوق نے کبھی نہ سنی، کہتی ہیں کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں،کبھی فنا نہ ہوں گی اور ہم خوش رہنے والیاں ہیں کبھی غمگین نہ ہوں گی، ہم راضی رہنے والیاں ہیں کبھی ناراض نہ ہوں گی اسے خوشخبری ہو جو ہمارا ہو اور ہم اس کے ہوں۔ (ترمذی،ج 4،ص254، حدیث: 2573)
جنتی دریا: جنّت میں پانی، شہد، دودھ اور شراب کا دریا ہے جن سے آگے نہریں نکلتی ہیں۔(ترمذی،ج4،ص257، حدیث:2580)
جنتیوں کا حلیہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنتی لوگ بغیر بال والے صاف بدن سُرمگیں (یعنی سرمہ لگی) آنکھوں والے ہوں گےنہ ان کی جوانی ختم ہو، نہ ان کے کپڑے گلیں۔(ترمذی،ج4،ص242، حدیث: 2548ملخصاً) جنتیوں کا قد و قامت (حضرت) آدم علیہ السَّلام، شکل و صورت (حضرت) یوسف علیہ السَّلام اور دل (حضرت) ایوب علیہ السَّلام کی مثل ہوگا۔
(بخاری،ج 2،ص411، حدیث:3326، مسند الشامیین لطبرانی،ج 3،ص82، حدیث: 1839)
کیا جنّت میں نیند ہوگی؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : نیند موت ہی کی ایک قسم ہے جبکہ جنّت میں موت نہیں ہوگی لہٰذا نیند بھی نہیں ہوگی۔(شعب الایمان،ج 4،ص183، حدیث:4754، معجم الاوسط،ج 1،ص266، حدیث: 919)
جنّتی زبان: جنّت میں عربی زبان بولی جائے گی۔(معجم الاوسط،ج 4،ص266، حدیث:5583)
جنّتی لباس: جنّت میں ریشمی بُوٹی کا درخت ہوگا جس سے جنتی لباس تیار کیا گیا ہوگا۔(البعث والنشور، ص195، حدیث:296)
جنّت میں حسبِ خواہش سب کچھ ملے گا: ایک اعرابی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:جنّت میں اونٹ ہوں گے؟ آپ علیہ السَّلام نے جواب دیا: اگر اللہ کریم تجھے جنّت میں داخل فرما دے تو وہاں تیرے لئے ہر وہ شے ہوگی جو تیرا دل چاہے اور آنکھیں پسند کریں۔(ترمذی،ج 4،ص243، حدیث:2552)
بیعت لینے کا انوکھا انداز
حضرت شیخ قمرالحق غلام رشیدعثمانی رشیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حضرت مخدوم سیّد اشرف جہانگیر سمنانی چشتی کچھوچھویرحمۃ اللہ علیہ (کچھوچھہ، الہند)کے پاس کوئی جاکے اگر یہ کہتا تھا کہ میں مرید ہوں گا، مخدوم کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور فرماتے تھے کہ پیر تو محمد رسول اللہ(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تھے اور مرید ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ۔ آؤ تمہارے ہاتھ پر میں استغفار پڑھوں کہ مجھے بھی خدا بخش دے۔اسی وجہ سے مخدوم کے سامنے لوگ استغفار کا لفظ بولتے تھے اور مرید ہوتے تھے۔“(تذکرہ ٔمشائخ رشیدیہ،ص114ملخصاً)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments