بارگاہِ رسالت میں لوگوں کے سلام پہنچانا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیا نِ شرع متین اس
مسئلے کے بارے میں کہ حج و عمرہ پر جاتے ہوئے بعض دوست احباب کہہ دیتے ہیں کہ میرا
سلام نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش کردینا تو کیا جب میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری
دوں تو ان کی طرف سے نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں سلام پیش کرنا مجھ پر واجب ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ
الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ جواب میں اس بات کا التزام کر لیتے
ہیں کہ ہاں میں آپ کا سلام پیش کردوں گا تو یہ سلام آپ کے پاس امانت ہے اس امانت
کو نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش کرنا آپ پر واجب ہو گا اور اگرآپ اس بات کا التزام نہیں
کرتے یعنی جواب میں یہ نہیں کہتے کہ ہاں میں آپ کا سلام پیش کردوں گا تو آپ پر
سلام پیش کرنا واجب نہیں کیونکہ سلام پہنچانا اس
وقت واجب ہوتا ہے کہ جب پہنچانے والا اپنے اوپر سلام پہنچانے کو قبول
کرکےلازم کرلے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حج فرض نہ تھا پھر بھی کرلیا تو!
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس
بارے میں کہ میں نے تقریباً24سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ حج کیا تھا، لیکن اس وقت میں صاحبِ استطاعت نہیں تھا۔ اب میری عمر32سال ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ صاحبِ استطاعت ہوں۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب مجھ پر دوبارہ سے حج کرنا فرض ہے؟
نوٹ:سائل نے وضاحت کی کہ اس نے 24سا ل کی عمر میں جو حج کیا
تھا، وہ مطلق حج کی نیت سے کیا تھا ،حج فرض یا نفل کی کوئی نیت نہیں تھی؟
بِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ
الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جب آپ نے 24سال کی عمر میں مطلق حج کی
نیت سے حج کر لیا تھا، تو اب آپ پر صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود حج فرض نہیں،کیونکہ
جو شخص صاحبِ استطاعت نہ ہو اور وہ فرض حج کی یا مطلق حج کی نیت سے حج کر لے، تو
اس کا فرض حج ادا ہو جاتا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حج فرض
ہونےکےباوجودتاخیرکرناکیسا؟
سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے
کے بارے میں کہ شوہر پر حج فرض ہے، مگر وہ کچھ سال اس وجہ سے حج نہ کرے کہ مزید
رقم جمع ہوجائے اور بیوی کو بھی ساتھ لے جائے گا، کیونکہ عموماً لوگ بھی کچھ اچھا
نہیں سمجھتے کہ شوہر اکیلا حج کرے اور بیوی کو ساتھ نہ لے جائے، تو اس وجہ سے حج میں
تاخیر کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ
الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا، ناجائز
و گناہ ہے، کیونکہ جب حج فرض ہوجائے، تو اب بلاعذر شرعی تاخیر کرنے کی اجازت نہیں
اور بیوی کے حج کی رقم نہ ہونا یہ کوئی عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے حج مؤخر کیا
جائے، لہٰذا شوہر پر حکم ہوگا کہ حج ادا کرے اور بیوی کے حوالے سے رقم کا انتظار
نہ کرے۔ ہمارے معاشرے میں یہ عجیب دستور بنتا جارہا ہے کہ شوہر اکیلا حج پر نہیں
جاسکتا، جب تک بیوی کو نہ لے جائے اور بعض تو اسی وجہ سے اپنے فریضۂ حج کو ادا
کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں،حالانکہ حدیث پاک میں اس کی سخت مذمّت ہے کہ حج کی
استطاعت رکھنے والا بغیر کسی عذرِشرعی کے حج ادا نہ کرے۔
فرض حج میں شریعتِ مطہرہ نے زوجہ کے
لئے بھی شوہر کی اجازت ضروری نہیں رکھی، دیگر شرائط موجود ہوں، مَحرَم ساتھ
ہے تو وہ فریضۂ حج کو جائے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حرم سے باہر حلق کروانا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس
مسئلے کے بارے میں کہ میں نے عمرہ کیا اور آخر میں سر کے چوتھائی حصہ سے کم چند
بال پکڑ کر کاٹ دیے اور احرام اُتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر حرم سے باہر چلا گیا اور
چار پہر سلے ہوئے کپڑے پہنے رکھے اور اس کے علاوہ کوئی اور مُنافیِ احرام کام نہیں
کیا پھر حرم سے باہر کسی نے مجھے بتایا کہ تمہاری تقصیر صحیح نہیں ہوئی جس کی وجہ
سے تم احرام سے باہر نہیں ہوئے تو اس وقت میں نے حرم سے باہر ہی حلق کروا دیا لیکن
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھ پر اب کوئی دَم یا
صدقہ وغیرہ دینا لازم ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ
الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ پر دو دَم لازم ہیں کیونکہ حج و
عمرہ کے اَرکان ادا کرنے کے بعد احرام سے باہر ہونے کے لئے حلق یا تقصیر یعنی سر
کے چوتھائی حصے کے بال پورے کی مقدار اُتارنا واجب ہے۔ تو چوتھائی سے کم بال
اتارنے کی وجہ سے تقصیر والا واجب ادا نہ ہوا، اسی وجہ سے آپ احرام سے باہر نہ
ہوئے اور احرام کی حالت میں ہی چار پہر سلے ہوئے کپڑے پہننے کی وجہ سے ایک دَم آپ
پر لازم ہوا، نیز حلق یا تقصیر کا حرم کے اندر ہونا واجب ہے اگر باہر کروائیں گے
تو دَم لازم آئے گا لہٰذا اس وجہ سے آپ پر
دوسرا دَم بھی لازم ہوگیا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
وضاحتی نوٹ
گزشتہ ماہ کے شمارہ ”ماہنامہ فیضان مدینہ(ذوالقعدۃ
الحرام 1440ھ)“ کے صفحہ 14 کےپہلے کالم کی
لائن24 کی عبارت” تو صدقہ لازم ہوگا “کی جگہ” تو ہر پھیرے کے عوض ایک صدقہ لازم
ہوگا “ اور لائن 26کی عبارت” دوسری صورت میں صدقہ ساقط ہو جائے گا کی جگہ”دوسری
صورت میں لازم ہونے والے صدقے ساقط ہوجائیں گے“پڑھئے،جبکہ دوسرے کالم کی پہلی اور
پانچویں لائن میں لفظ ”چارصدقات“ کی جگہ ”12صدقات“ پڑھئے۔یاد رہے کہ گذشتہ شمارے میں یہ مسئلہ غلط لکھا گیا تھا لہذا یہ تصحیح و ازالہ ضروری سمجھا گیا ۔(مفتی
فضیل رضا عطاری( دار الافتا ء اہلِ سنت))
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز
فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments