ارشادِ
باری تعالیٰ ہے:( وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(۶۹) فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةًؕ-قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ(۷۰) وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَۙ-وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ(۷۱)قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاؕ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ(۷۲) قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِؕ-اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ(۷۳) فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ(۷۴) اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ-اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَۚ-وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ(۷۶))(پارہ12،ھود:69تا76)
ترجمہ:اور
بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ”سلام“ کہا تو
ابراہیم نے ”سلام“ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔(69)
پھر جب دیکھا کہ ان (فرشتوں) کے
ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو ان سے وحشت ہوئی اور ان کی طرف سے خوف محسوس
کیا۔انہوں نے کہا: آپ نہ ڈریں۔ بیشک ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔(70)
اور ان کی بیوی (وہاں)کھڑی
تھی تو وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری
دی۔ (71)
کہا: ہائے تعجب!کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور یہ میرے
شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں۔ بیشک یہ بڑی عجیب بات ہے۔(72)
فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کام پر تعجب
کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ
کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والاہے۔ (73)
پھر جب ابراہیم سے خوف زائل ہوگیا اور اس کے پاس خوشخبری آگئی تو ہم سے قوم ِلوط
کے بارے میں جھگڑنے لگے۔(74)
بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔ (75) (ہم نے فرمایا)اے
ابراہیم! اس بات سے کنارہ کشی کرلیجیے، بیشک تیرے رب کا حکم آچکا ہے اور بیشک ان
پرایسا عذاب آنے والا ہے جو پھیرا نہ جائے گا۔ (76)
سورۂ ہودکی ان آٹھ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ فرشتے حسین و جمیل نوجوان لڑکوں کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے پاس آئے اور سلام عرض کیا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے سلام کا جواب دیا اور انہیں مہمان خیال کرتے ہوئے ایک بھنا ہوا بچھڑا کھانے کے لئے لے آئے، لیکن مہمانوں نے کھانے کی طرف اصلاً ہاتھ نہ بڑھایا۔ اس پر آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو گھبراہٹ اور خوف ہوا کہ یہ کوئی نقصان نہ پہنچادیں۔ فرشتوں نے خوفزدہ دیکھ کر عرض کی کہ آپ نہ ڈریں، ہم کھانا اس لئے نہیں کھا رہے کہ ہم فرشتے ہیں اور قومِ لوط پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ اِس گفتگو کے دوران حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی زوجہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا بھی پس ِپردہ کھڑی یہ باتیں سن رہی تھیں، بیٹے کی بشارت یا کسی اور بات پر وہ ہنس پڑیں۔ فرشتوں نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بیٹے اسحاق اور ان کے بعد اسحاق کے بیٹے یعقوب علیہما الصلٰوۃ والسَّلام کی ولادت کی خوشخبری دی۔ بشارت سن کر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے تعجب سے کہا:کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کی عمر 120سال اور حضرت سارہ کی 90 سال تھی (جلالین مع صاوی،ج3،ص923) فرشتوں نے جواب دیا کہ آپ کے لئے اس امرِ الٰہی پر کیا تعجب کیونکہ آپ کا تعلق اس گھرانے سے ہے جو معجزات اور عادتوں سے ہٹ کر کاموں کے سرانجام ہونے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ بنا ہوا ہے۔
بہرحال جب فرشتوں سے کلام کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کا خوف زائل ہوگیا تو آپ علیہ السَّلام قومِ لوط کے بارے میں فرشتوں سے سوال و جواب کی صورت میں کلام کرنے لگے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ سے بیان فرمایا کہ ابراہیم ہم سے قوم ِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کا مقصد یہ تھا کہ عذاب مؤخر ہوجائے اور بستی والوں کو ایمان و توبہ کے لئے کچھ اور مہلت و موقع مل جائے۔آپ علیہ السَّلام کی اس رحمت و شفقت پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدح فرمائی کہ بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے، خدا سے بہت ڈرنے والے، اس کے سامنے بہت آہ و زاری کرنے والے ہیں اور اس کے علاوہ ” مُنِیْبٌ“ یعنی خدا کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ جو شخص دوسروں پر عذاب ِ الٰہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اورا س کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اپنے معاملے میں کس قدر خدا سے ڈرنے والا اور رجوع کرنے والا ہوگا۔ قوم ِ لوط کے متعلق جب حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کا کلام طویل ہوا تو فرشتوں نے عرض کی: اے ابراہیم! عذاب مؤخر کرنے کی درخواست چھوڑ دیں کیونکہ رب العالمین کی طرف سے اِس قوم پر عذاب نازل ہونے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا اس عذاب کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں اور یوں اِس کے بعد قومِ لوط پر عذاب آگیا۔
ان آیات سے درس ٭ملاقات کے وقت سلام کرنا فرشتوں اور نبیوں کی سنت ہے ٭نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج ِمطہرات اہل ِبیت میں داخل ہیں کیونکہ یہاں حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو اہل بیت کہا گیا ہے ٭حضرت ابراہیم اور ان کی زوجہ کو بیٹے اور پوتے کی بشارت دینے سے مستقبل کے غیب کی خبر معلوم ہوگئی اور بتانے والے فرشتوں کو بھی یقیناً یہ غیب کا علم تھا ٭تحمل، بردباری، خوفِ خدا، گریہ و زاری، خدا کی طرف رجوع کرنا، اللہ کریم کو بہت پسند ہے ٭کفار کے ساتھ یہ رحمت و شفقت کی جائے کہ ان کے لئے دولت ِ ایمان کی کوشش کی جائے تاکہ وہ ابدی عذاب سے بچ جائیں ٭انبیاء علیھم السَّلام کا بارگاہِ خداوندی میں بہت بلند مقام ہے کہ اُس عظمت والی بارگاہ میں بھی یہ تکرار و اصرار کرسکتے ہیں، گویا نیاز بھی ہے اور ناز بھی ٭فرشتوں کے صحیفوں میں لکھی کسی چیز پر معلق تقدیر دعاؤں یا نیکیوں سے ٹل جاتی ہے جبکہ ظاہری مُبرَم و قطعی تقدیر انبیاء علیھم السَّلام اور خواص اولیاء کی دعاؤں سے بدل سکتی ہے لیکن حقیقی قطعی مبرم تقدیر ہرگز نہیں بدلتی، حتی کہ انبیاءِ کرام علیھم السَّلام بھی اس کے متعلق دعا کرنے لگیں تو انہیں دعا کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی
محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments