روشن ستارے
مولا علی کی زیارت
* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
(ماہنامہ اپریل 2022)
شیرِ خدا ، مولائے کائنات ، امیرُالمؤمنین حضرت سَیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ جہاں عمدہ اوصاف ، بہترین اخلاق اور بے شمار خوبیوں کے مالک تھے وہیں ربِّ کریم کے کرم سے حسن و جمال سے بھی مالا مال تھے علّامہ ابنِ عبدالبر مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 463ھ) آپ کا حلیہ مبارکہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہُ عنہ کا قد درمیانہ تھا ، آنکھوں کی سیاہی خوب سیاہ اور سفیدی بے انتہا سفید تھی ، چہرہ حسین تھا گویا کہ حُسن میں چودھویں رات کا چاند ہے ، پیٹ بڑا ، دونوں کندھے کشادہ اور چوڑے تھے ، دونوں ہتھیلیاں گوشت سے پُر اور کھردری تھیں۔ گردن گویا کہ چاندی کی صُراحی تھی ، سر پر بال صرف پیچھے کی جانب تھے ، چہرے پر بڑی داڑھی ، مونڈھوں کی ہڈّیاں شکاری پرندے کی طرح مضبوط اور ابھری ہوئیں ، (بازو اور کلائی گوشت سے ایسے بھرے ہوئے تھے کہ) بازو کلائی سے الگ معلوم نہ ہوتا گویا کہ کلائی بازو میں مضبوطی سے پیوست تھی ، جب چلتے تو آگے کی طرف جھکاؤ ہوتا ، جب اپنا سانس روک کر کسی مرد کی کلائی کو گرفت میں لیتے تو اس مرد کی مجال نہ ہوتی کہ سانس لے سکے ، جسم بھاری تھا مگر مضبوط کلائی اور مضبوط ہاتھ کے مالک تھے میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے آگے بڑھتے تو قدرے تیز چلتے ، مضبوط دل والے تھے ، بہادر اور طاقتور تھے ، جس سے ٹکراتے اس پر کامیاب و فتح یاب رہتے تھے۔ [1] عُلمائے کرام نے جہاں امیرُالمؤمنین حضرت سَیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے فضائل و مناقب میں بہت ساری روایتیں بیان کی ہیں وہیں بعض روایتیں ایسی بھی بیان کی ہیں جن میں نہ صرف آپ کے ذکر کو عبادت کہا گیا ہے بلکہ آپ کی طرف نظر کرنے کو اور آپ کے چہرے کے دیدار کو بھی عبادت قرار دیا ہے۔ [2] یہاں تک کہ امام جعفر صادق رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 148ھ) تو حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے محبت کرنے کو بھی عبادت قرار دیتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : مولا علی سے محبت رکھنا عبادت ہے اور افضل عبادت وہ ہے جس کو چھپایا جائے۔ [3] امام ابوسلیمان خطّابی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 388ھ) کہتے ہیں : مولا علی کے چہرے کی طرف دیکھنا ذکرِ الٰہی کی جانب بلاتا ہے کیونکہ آپ کے چہرے پر اسلام کے نور کی چمک دکھائی دیتی ہے اس پیارے چہرے پر ایمان کی تازگی و شادمانی دکھائی دیتی ہے ، اس رُخِ زیبا پر سجدوں کے نشانات اور عاجزی و انکساری کی علامتیں دکھائی دیتی ہیں۔ [4] علمائے کرام مزید فرماتے ہیں : حضرت شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ کی زیارت سے زبانوں پر کلمۂ توحید جاری ہوجاتا تھا۔ جب آپ رضی اللہُ عنہ لوگوں کے سامنے تشریف لاتے تو لوگ کلمۂ توحید پڑھتے ہوئے آپ کی تعریف یوں بیان کرتے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ! اس نوجوان کی کیا عظمت و شرافت ہے ، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ! یہ کیسا بہادر نوجوان ہے ، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ! یہ نوجوان کتنا زیادہ علم رکھتا ہے ، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ! یہ نوجوان کتنا زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے ، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ! اس نوجوان سے زیادہ حسین و جمیل کوئی نہیں۔ گویا کہ مولا علی رضی اللہُ عنہ کی زیارت کرنا عبادتِ لسانی پر ابھارتا تھا جو کہ بہت بڑی سعادت مندی تھی۔ [5] آئیے! مولا علی رضی اللہُ عنہ کی زیارت و دیدار کی مناسبت سے چند روایتیں ملاحظہ کیجئے۔
حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : میں نے والدِ ماجد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کو دیکھا کہ وہ مولا علی رضی اللہُ عنہ کے چہرے کی طرف بار بار دیکھتے ہیں ، میں نے پوچھا : اے میرے والدِ محترم! آپ حضرت علی کے چہرے کو بار بار دیکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : میں نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “ علی کے چہرے کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔ “ [6] حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں : حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی حضرت سیّدنا علی کے پا س تشریف لائے اور فرمایا : آپ میرے پاس آئیے گا ، جب حضرت علی حضرت عثمانِ غنی کے پاس پہنچے تو حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ نے حضرت علی کے چہرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا شروع کردیا ، حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے کہا : اے عثمان! کیا وجہ ہے کہ آپ مجھے مسلسل دیکھے جارہے ہیں؟ حضرت عثمانِ غنی نے فرمایا : میں نے رسولِ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “ علی کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔ “ [7]ایک مرتبہ صحابیِ رسول حضرت سَیّدُنا عمران بن حصین رضی اللہُ عنہ بیمار ہوئے تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عیادت کےلئے تشریف لائے اور فرمایا : مجھے تمہاری بیماری کی طرف سے فکر ہے ، آپ نے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ فکر مت کیجئے ، جو چیز اللہ کو زیادہ پسند ہے مجھے بھی وہ زیادہ پسند ہے ، پھر نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا دی : لَا بَاْسَ عَلَیْکَ عِمْرَان! اے عمران! تجھ پر کوئی تنگی نہیں ، آپ کو اس درد سے شفا ملی تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوٹ کر حضرت علیُّ المرتضیٰ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : تم نے اپنے بھائی عمران بن حصین کی عیادت کی ، حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی : مجھے ان (کی بیماری) کے بارے میں معلوم نہیں ، ارشاد فرمایا : میں تم پر لازم کررہا ہوں کہ اس وقت تک نہ بیٹھنا جب تک کہ ان کی عیادت نہ کرلو ، (حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ حضرت عمران کی عیادت کیلئے تشریف لائے) تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہُ عنہ متوجہ ہوکر مولا علی کے چہرے کو دیکھنے لگے پھر اُٹھ کر بیٹھ گئے اور مولا علی کو دیکھنے لگے جب حضرت علی رضی اللہُ عنہ واپس جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمران کی نگاہیں مولا علی پر جمی رہیں یہاں تک کہ مولا علی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ، وہاں موجود ہم نشینوں نے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت عمران بن حصین نے فرمایا : میں نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “ علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ “ [8] حضرت سَیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے چہرے کو مسلسل دیکھے جارہے ہیں ، میں نے پوچھا : کیا وجہ ہے کہ آپ مولا علی کے چہرے کو ٹکٹکی باندھ کر ایسے دیکھ رہے ہیں کہ جیسے آپ نے اس سے پہلے انہیں نہ دیکھا ہو ، حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا : میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ “ [9] علّامہ عبد الرؤوف مُناوی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 1031ھ) فرماتے ہیں : علّامہ جلالُ الدّین سیوطی شافعی اور دیگر عُلما نے بیان کیا ہے کہ زیارتِ علی والی حدیثِ مبارکہ متعددطرق کےساتھ 11 صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔ [10]21 رمضانُ المبارک سن 40 ہجری کوشیرِخدا مولا علی رضی اللہُ عنہ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ [11]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینئیر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی
[1] الاستیعاب ، 3 / 218 ملخصاً
[2] سبل الہدیٰ والرشاد ، 11 / 292 ، 293
[3] تاریخ بغداد ، 12 / 346
[4] غریب الحدیث للخطابی ، 2 / 182
[5] فیض القدیر ، 6 / 388 ، تحت الحدیث : 9319 ، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر ، 5 / 66
[6] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 350
[7] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 350
[8] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 353 ، مستدرک ، 4 / 118 ، اللائی المصنوعہ ، 1 / 316
[9] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 352
[10] فیض القدیر ، 6 / 388 ، تحت الحدیث : 9319
[11] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 587۔
Comments