سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
شانِ حبیب بزبانِ حبیب (قسط14)
* مولانا ابوالحسن عطّاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2022
گزشتہ سے پیوستہ
(4)اپنے پاس جمع نہ رکھنا :
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جُو دو سخا کا ایک عظیم پہلو غَنا یعنی بے نیازی تھا۔ آپ مال جمع نہیں رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ کبھی آپ پر زکوٰۃ فرض نہ ہوئی ، آپ کے خادمِ خاص حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ یعنی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دوسرے دن کے لئے کچھ بھی جمع نہ فرماتے تھے۔ [1]
تھوڑا بہت مال کہیں سے بھی مفت میں مل رہا ہو تو عموماً ہر بندہ دیانتداری کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن اگر کہیں سے ڈھیر سارا مال بغیر محنت مل رہا ہو تو کئی لوگ بہک بھی جاتے ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ اگر اپنی محنت اور کمائی کا ڈھیر سارا مال جمع ہو اور اس کی زکوٰۃ لاکھوں میں بن رہی ہو تو کئی لوگ اس پر بھی چونک جاتے ہیں اور سمجھتےہیں کہ ہمارا مال کم ہوجائے گا ، لیکن قربان جائیے مالکِ خزائنِ کائنات ، جنابِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ جود و سخا پر کہ کبھی کچھ جمع ہی نہ فرمایا بلکہ ایک موقع پر تو اُحد پہاڑ کو دیکھ کر یہاں تک فرما دیا کہ اگر یہ پہاڑ میرے لئے سونا بن جائے تو بھی میں پسند نہیں کروں گا کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس ایک یا تین راتوں سے زیادہ رہ جائے ، سوائے اُس کے کہ جو قرض ادا کرنے کے لئے روکوں۔ [2]
ایک روز سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عصر کی نماز پڑھائی اور سلام پھیرتے ہی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر میں تشریف لے گئے اور پھر جلد ہی واپس تشریف لے آئے ، صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو تعجب ہوا ، حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے فرمایا : مجھے نماز میں خیال آگیا کہ صدقہ کا کچھ سونا گھر میں پڑا ہے ، مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ رات ہو جائے اور وہ گھر میں پڑا رہے اس لئے جا کر اسے تقسیم کردینے کے لئے کہہ آیا ہوں۔ [3]
حضرت سیّدنا بلال حبشی رضی اللہُ عنہ کو آپ کا خزانچی ہونے کا شرف حاصل ہے ، انہوں نے ایک بہت ہی پیارا واقعہ ذکر کیا کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جوکچھ ہوتا ، اسے خرچ کرنے کی ذِمَّہ داری میری ہوتی تھی ، بِعْثت سے وفات شریف تک یہ کام میرے حوالے رہا۔ جب کوئی بے لباس مُسلمان آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آتا تو آپ مجھے حکم فرماتے اور میں کسی سے قَرض لیتا اور چادر خرید کر اسے اُڑھاتا اور کھانا بھی کھلاتا۔ ایک دن ایک مُشرِک میرے پاس آیا اور کہنے لگا : اے بلا ل! تم میرے سوا کسی اور سے قرض نہ لیا کرو ، میرے پاس کثیر مال ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا ، ایک دن میں وُضو کر کے اَذان دینے کیلئے کھڑا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مُشرک کئی تاجروں کے ہمراہ میرے پاس آیا اور مجھے بہت بُرا بھلا کہا اورکہنے لگا : تمہیں کچھ مَعلوم ہے وعد ے میں کتنے دن باقی ہیں۔ میں نے کہا : وَقْتِ وعدہ قریب آگیا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف چاردن باقی رہ گئے ہیں ، اگر اس مُدَّت میں تم نے قرض اَدا نہ کیا تومیں تمہیں غلام بنا کر بکریاں چرواؤں گاجیسا کہ تم پہلے چر ایا کر تے تھے۔ یہ سُن کر مجھے فکر دامن گیر ہوئی۔ یہاں تک کہ میں عشاء کی نماز پڑھ چکا تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اپنے کاشانۂ اَقْدس میں تشریف لے گئے ، میں اجازت لے کر حاضرِ خدمت ہوااورعرض کی : یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں۔ وہ مُشرک جس سے میں قرضہ لیتاہوں ، اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے ، آپ کے پاس بھی اَدائے قرض کے لئے کچھ نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں ، وہ مجھے پھر رُسوا کرے گا۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمانوں کے پاس چلاجاؤں اور جب اللہ پاک اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اتنا مال عطا فرمادے کہ جس سے میرا قرض اَدا ہوجائے تو میں اِن شآءَ اللہ واپس آجاؤں گا۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا۔ صُبْح کے وَقْت جانے کے اِرادے سے جب میں باہر نکلا تو ایک شخص دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا ، اے بلال! رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو بُلایا ہے۔ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامان سے لَدے ہوئے چار اُونٹ موجود ہیں۔ میں نے اندر آنے کی اِجازت مانگی توآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مُبارک ہو! اللہ کریم نے تمہارے قرض کی اَدائیگی کا سامان کر دیا ، پھر فرمایا : تم نے چار اُونٹ دیکھے؟ میں نے عرض کی ، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اُونٹ حاکمِ فَدَک نے بھیجے ہیں ، یہ ان پر لَدا ہوا غَلَّہ اور کپڑے سب تم رکھ لو اور ان کے ذریعے اپنا قرضہ ادا کر دو۔ میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا ، پھر میں مسجد میں آیا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سلام عرض کیا ، تو آپ نے پُوچھا! اس مال سے تجھے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ میں نے عرض کی ، اللہ پاک نے وہ تمام قَرض اَدا فرما دیا ، جو اس کے رسول پر تھا ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اس مال میں سے کچھ باقی بھی بچا ہے؟ میں نے عرض کی : جی ہاں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مجھے اس سے بھی سَبُکدوش(بے تَعلُّق) کرو! جب تک یہ کسی ٹھکانے نہ لگے گا ، میں گھر نہیں جاؤں گا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازِعشا سے فارغ ہوئے تو مجھے بُلاکر اس بقیہ مال کا حال دریافت کیا ، میں نے عرض کی : وہ میرے پاس ہے کوئی سائل نہیں ملا۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رات کو مسجد ہی میں رہے۔ دُوسرے روز نمازِ عشا کے بعد مجھے پھر بُلایا ، میں نے عرض کی : یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کریم نے آپ کو سَبُکدوش کر دیا۔ یہ سُن کر آپ نے تکبیر کہی اور خُدا کا شکر اَدا کیا ، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور وہ مال میرے پاس ہو۔ اس کے بعد میں حُضُور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے چلنے لگا ، یہاں تک کہ آپ کاشانۂ اقدس میں تشریف لے گئے۔ [4]
ایک مرتبہ بحرین سے کچھ مال رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر کیا گیا ، آپ نے ارشاد فرمایا : اسے مسجد میں ڈال دو ، پھر آپ نماز کے لئے تشریف لے گئے ، آپ نے مال کی جانب قطعاً توجہ نہ فرمائی ، نماز ادا فرمانے کے بعد تشریف لائے اور اس مال کے پاس بیٹھ گئے ، آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہُ عنہ آپ کے پاس آئے اور عرض کی : یَارسولَ اللہ! مجھے اس مال میں سے دیجئے کیونکہ جنگِ بدر کے دن میں نے اپنا اور عقیل بن ابی طالب کا فدیہ دیا تھا ، حضور علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے فرمایا : لے لو ، حضرتِ عباس رضی اللہُ عنہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کپڑے میں (بہت سا مال) ڈال لیا ، راویِ حدیث حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام ایک دِرہم کے باقی رہ جانے تک وہیں جلوہ فرما رہے۔[5]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ،ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
[1] شمائل محمدیہ ، ص200 ، حدیث : 337
[2] بخاری ، 4 / 179 ، حدیث : 6268
[3] بخاری ، 1 / 296 ، 411 ، 482 ، حدیث : 851 ، 1221 ، 1430
[4] ابو داؤد ، 3 / 230تا 232 ، حدیث : 3055ملخصاً
[5] بخاری ، 1 / 162 ، حدیث : 421 ، 2 / 365 ، حدیث : 3165 ، عمدۃ القاری ، 3 / 410 ، تحت الحدیث : 421
Comments