تذکرۂ صالحات

سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہُ عنہا

* مولانا محمد بلال سعید عطاری مدنی

اللہ پاک کے پیارے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شہزادیوں میں سے آپ کی سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ہیں ، آپ ہی وہ ہستی ہیں جنہیں “ سَیّدۃُ نِساء اہل الجنّۃ “ اور “ سیّدۃ نِساء العالمین “ جیسے القابات عطا ہوئے۔ آپ وضع قطع اور شکل و صورت میں آقا کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے بہت مشابہ تھیں۔ [1]

پُرنور ولادت : سیّدہ فاطمۃ الزہراء کی ولادتِ با سعادت اعلانِ نبوت سے 5 سال پہلے ہوئی۔ [2] جب آپ  رضی اللہ عنہا  کی ولادت ہوئی تو فضا آپ کے چہرے کے نور سے منور ہوگئی۔ آپ کی ولادت حضرت خدیجۃُ الکبری  رضی اللہ عنہا  کے گھر پر ہوئی اسی لئے اسے مولدِ فاطمہ کہا جاتا تھا ، [3] حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہا  نے دیگر اولاد کی طرح آپ کو دائی کے سپرد نہیں کیا کہ وہ آپ کو دودھ پلائے بلکہ انہوں نے خود اپنے زیرِ سایہ آپ کی شاندار پرورش کی ۔ [4]

عبادت و ریاضت : آپ روزوں اور عبادت و ریاضت کا بہت شوق رکھتی تھیں کئی بار ایسا ہوا کہ آپ نے پوری رات نماز پڑھتے ہوئے گزار دی۔  [5]

پردہ و حیا : شرم و حیا اور پردہ کرنا آپ کے اعلیٰ اوصاف میں سے تھا ، کبھی کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑی ، بلکہ آپ کی یہ تمنا تھی کہ وصا ل کے بعد بھی مجھ پرکسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے ، چنانچہ بروزِ محشر لوگوں کو نگاہیں جھکانے کا حکم ہوگا تاکہ آپ  رضی اللہ عنہا  پل صراط سے گزر جائیں۔ [6]

راہِ خدا میں خرچ : اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنا آپ کا محبوب اور پسندیدہ ترین عمل تھا۔ چنانچہ آپ کی یہ شان اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بھی بیان فرمائی۔ [7]

ازدواجی زندگی : حضرت مولیٰ علی اور حضرت فاطمہ  رضی اللہُ عنہما  کا نکاح یقیناً بہت عمدہ اور شاندار تھا جس میں خود ربّ کریم کی رضا اور نبیِّ کریم کی دُعائیں ، نصیحتیں اور شفقتیں شامل تھیں ، یہ مبارک نکاح ایک قول کے مطابق 26 یا 27 صفرسن 2ھ میں ہوا۔ [8]

نکاح کے بعد بی بی فاطمہ نے امورِ خانہ داری کی ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی اور سلیقے سے نبھایا اور ہر طرح کی مشکلات پر صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا ، چکی پیسنے سے ہاتھوں میں نشان پڑجاتے ، پانی کی مشک بھر کر لانے کی مشقت ہوتی[9]  آپ نے پھر بھی اپنی ازدواجی زندگی کا سفر صبر و شکر سے طے کیا۔

تربیتِ اولاد : آپ کے 3 بیٹے حسن ، حسین ، محسن اور 3 بیٹیاں زینب ، رقیہ اور ام کلثوم تھیں ، ان میں حضرت محسن اور رقیہ کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ [10]

عشقِ رسول : آپ اپنے بابا جان سے بے انتہا محبت فرماتیں انہیں اپنی جگہ بٹھاتیں ان کی خوشی سے خوش اور ان کی تکلیف پر رنجیدہ ہوجاتیں ، ایک بار کفارِ مکہ نے مَعاذَ اللہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر نماز کی حالت میں اونٹنی کی بچہ دانی ڈال دی ، آپ کو معلوم ہوا تو بہت غمگین ہوئیں اور فوراً جا کر اسے ہٹایا۔ [11] غزوۂ احد کے موقع پر شدید جنگ میں کئی صحابۂ کرام شہید ہوئے بہت سے زخمی بھی ہوئے ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مبارک چہرہ پر بھی زخم آیا ، سیّدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  اپنے بابا جان کا مبارک چہرہ پانی سے دھو رہی تھیں ، مگر خون بند نہیں ہوتا تھا بالآخر کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ مبارک چہرے کے زخم پر رکھی جس سے خون تھم گیا۔ [12]

آقا کی اِن سے محبت : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بھی اپنی لختِ جگر سے بہت محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے اور ان کو اپنی نشست پر بٹھاتے۔ [13] نیز آپ سفر سے واپسی پر سب سے پہلے بی بی فاطمہ کے ہاں تشریف لاتے۔ [14]  ایک موقع پر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : میری بیٹی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو چیز اسے بُری لگے وہ مجھے بُری لگتی ہے اور جو چیز اسے ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ [15]

ازواجِ مطہرات سے محبّت : ازواجِ مطہرات سے بی بی فاطمہ کا تعلق نہایت محبت بھرا تھا ، اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو ، ایک بار امّاں عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے کسی نے سوال کیا : حضور کو کون زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : فاطمہ ، پوچھا مَردوں میں؟ فرمایا : ان کے شوہر۔ [16] مفتی احمد یارخان  رحمۃُ اللہِ علیہ  یہاں فرماتے ہیں : یہ ہے حضرتِ عائشہ صِدیقہ کی حق گوئی کہ آپ نے یہ نہ فرمایا کہ حضور کو سب سے زیادہ پیاری میں تھی اور میرے بعد میرے والد بلکہ جو آپ کے علم میں حق تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اگر یہ ہی سوال حضرت فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  سے ہوتا تو آپ فرماتیں کہ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو زیادہ پیاری جنابِ عائشہ  رضی اللہ عنہا  تھیں پھر ان کے والد۔ معلوم ہوا کہ ان کے دل بالکل پاک و صاف تھے۔ افسوس ان لوگوں پر ہے جواِن حضرات کو ایک دوسرے کا دُشمن کہتے ہیں۔ [17]

وصالِ پُر ملال : آپ آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد حضور کی یاد اور فراق میں بے چین رہتیں ، آخر کار حضور کی وفات کے 6 ماہ بعد 3 رمضان المبارک کو آپ اس جہاں سے رخصت ہوگئیں۔ [18] صحیح قول کے مطابق اسلام کے پہلے خلیفہ ، امیرالمؤمنین حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ [19] مختار قول یہ ہے کہ آپ کا مزارِ پُر انواربقیع شریف میں ہے۔ [20]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ فیضانِ صحابیات و صالحات المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 453ملخصاً

[2] شرح الزرقانی ، 4 / 331

[3] السیرۃ الحلبیۃ ، 1 / 91

[4] تاریخ مدینہ دمشق ، 3 / 128

[5] مدارج النبوۃ ، 2 / 461

[6] مستدرک ، 4 / 136 ، حدیث : 4781

[7] پ29 ، الدھر : 8-9- تفسیر در منثور ، 8 / 371

[8] تاریخ مدینہ دمشق ، 3 / 128

[9] ابو داود ، 4 / 409 ، 5063 ملتقطا ً

[10] مدارج النبوۃ ، 2 / 460

[11] بخاری 1 / 102 ، حدیث : 240 ملخصاً

[12] بخاری ، 3 / 43 ، حدیث : 4075

[13] ابو داود ، 4 / 454 ، حدیث : 5217ملتقطاً

[14] مستدرک ، 4 / 141 ، حدیث : 4792

[15] ترمذی ، 5 / 464 ، حدیث : 3893

[16] ترمذی ، 5 / 467 ، حدیث : 3900

[17] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 469

[18] مدارج النبوۃ ، 2 / 461

[19] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 456- حلیۃالاولیاء ، 4 / 100 ، رقم : 4895

[20] فتاوی رضویہ ، 26 / 432- مدارج النبوۃ ، 2 / 461


Share

Articles

Comments


Security Code