تاریخ کے اوراق
اصحابِ بدر کا جوش و جذبہ
* مولانا حامد سراج عطاری مدنی
(ماہنا مہ اپریل 2022)
17رمضانُ المبارک کو ہونے والا غزوۂ بدر تاریخ کا ایسا عجیب و حیران کُن معرکہ ہے جس پر جرأت و بہادری آج بھی ناز کرتی ہے۔ غزوۂ بدر کی یاد آج بھی ایمان تازہ کرتی اور ایمانی جوش و جذبے کو جِلا بخشتی ہے۔ ایک طرف تین سو تیرہ مقدس ہستیوں پر مشتمل بظاہر معمولی لشکر ہو جبکہ دوسری طرف ایک ہزار کا مجمع ہو ، ایک طرف صرف آٹھ تلواریں ہوں جبکہ دوسری طرف ہر سپاہی اسلحہ سے لیس ہو ، ایک طرف صرف دو گھوڑے ہوں جبکہ دوسری طرف سو گھوڑے ہوں ، ایک طرف غربت و افلاس نے ڈیرہ ڈال رکھا ہو جبکہ دوسری طرف مال و دولت کے انبار ہوں اور کبھی نو تو کبھی دس اونٹ ذبح کئے جائیں اور پیٹ کی آگ بجھائی جائے ، سامانِ حرب میں اتنی کثرت کے باوجود شکست مقدر بن جائے اور قلیل گروہ کثیر لشکر پر غالب آجائے تو اس کی وجہ جوش و جذبہ کی سچائی اور عقیدے کی پختگی ہے۔ اس ایک معرکے میں صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے جوش و جذبات کے واقعات پڑھ کر آج بھی جذبے جوان ہونے لگتے ہیں اور ایمان کو تازگی نصیب ہوتی ہے۔
پسِ منظر میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ علم ہوا کہ کافروں کا ایک بڑا لشکر جنگ کے ارادے سے نکل چکا ہے تو حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس صورتِ حال سے آگاہ کرنے اور مشورہ کرنے کے لئے صحابۂ کرام کو جمع کیا ، جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے رائے دریافت فرمائی۔ سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے گفتگو کی اور خوب گفتگو کی ، پھر امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ نے گفتگو کی اور اپنے جذبۂ جاں نثاری کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح حضرت مقداد بن عَمرو رضی اللہُ عنہ نے اپنی رائے دی ، ان کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے : اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! جہاں اللہ نے آپ کو جانے کا حکم دیا ہے اسی طرف تشریف لے چلیں ، ہم قومِ موسیٰ نہیں جنہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جا کر لڑو! ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ چلیں اور جنگ کریں ہم آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ [1] ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے اپنی جانیں قربان کریں گے۔ [2] نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی باتیں سُن کر بڑے خوش ہوئے اور انہیں دُعا دی۔ [3] نیز دیگر کئی مہاجرین نے بھی بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خواہش تھی کہ انصار صحابہ اپنے جذبات کا اظہار کریں ، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان حضرات کی تعداد مہاجرین کے مقابلے میں زیادہ تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار نے آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیاتھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔ [4] تو انصار میں سے سیّد الانصار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ کھڑے ہوئے ، انہوں نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! شاید آپ ہماری رائے دریافت فرمانا چاہتے ہیں؟ فرمایا : بےشک۔ تو وہ عرض کرنے لگے : یارسولَ اللہ! بیشک ہم آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تصدیق کی ، تو اب آپ جدھر تشریف لے جانا چاہیں چلیں! ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں گے تو ہم سمندر میں بھی چھلانگ لگا دیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا ، ہم جنگ میں صبر کرنے والے اور دشمن کا مقابلہ کرنے والے لوگ ہیں ، ہمیں رب کے کرم سے امید ہے کہ میدانِ کارزار میں ایسے کارنامے دکھائیں گے کہ آپ کی چشمانِ مبارک ٹھنڈی ہو جائیں گی[5] ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن معاذ یوں گویا ہوئے : فَصِلْ حِبَالَ مَنْ شِئْتَ ، وَاقْطَعْ حِبَالَ مَنْ شِئْتَ ، وَسَالِمْ مَنْ شِئْتَ ، وَعَادِ مَنْ شِئْتَ ، وَخُذْ مِنْ اَمْوَالِنَا مَا شِئْتَ یعنی آپ جس سے چاہیں تعلق رکھیں ، جس سے چاہیں تعلق توڑیں ، جس سے چاہیں صلح کریں ، جسے چاہیں دشمنوں کی صف میں داخل کریں ، ہمارے مالوں میں سے جو کچھ چاہیں لے لیں (ہم آپ کے ساتھ ہیں)۔ [6] حضرت سعد کی جوش و جذبے سے بھرپور گفتگو سُن کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بے حد خوش ہوئے۔ [7]
یہ تھا صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کا جوش وجذبہ ، باوجود اس کے کہ ان کے پاس لڑنے کے لئے اسلحہ نہیں ، کھانے کیلئے غذا نہیں ، سواری کے لئے جانورپورے نہیں ، صرف 8 تلواریں ، دو گھوڑے اور ستر اونٹ ہیں جبکہ مَدِّ مُقابل دشمن کی تعداد بھی زیادہ ہے اور ان کے وسائل بھی لاتعداد ہیں ، ایسی بے سر و سامانی کے باوجود بھی صحابۂ کرام نے یہ نہیں کہا کہ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! کیاہمیں قتل کروانے کا ارادہ ہے؟ کم سے کم پہلے سامانِ جنگ تو دے دیں ، تلواریں ہی پوری کر دیں ، ایسا کچھ نہیں کہا ، کوئی شکوہ نہیں کیا بلکہ صرف اتنا کہا کہ آپ حکم فرمائیں! ہم اس کی تعمیل کے لئے جانیں نچھاور کرنے کو بھی تیار ہیں۔ مجاہدینِ بدر کے یہی وہ جذبات تھے کہ جب کافروں کی طرف سے عمیر بن وہب (جو بعد میں مسلمان ہوگئے وہ) مسلمانوں کے لشکر کا جائزہ لینے کے لئے آئے تو جوابی تاثرات یوں تھے : اے گروہِ قریش! میں نے ایسی اونٹنیاں دیکھی ہیں جو موت کو لادے ہوئے ہیں ، بخدا میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں سے ایک بندہ بھی اس وقت تک قتل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ تم میں سے کسی ایک کو قتل نہ کر دے۔ اگر ہم میں سے تین سو بندوں کو بھی انہوں نے تہ تیغ کر دیا تو پھر جینے میں کیا لطف رہے گا![8]
اے کاش! صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے ان مقدس جذبوں کے صدقے ہم بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات پر صدقِ دل سے عمل کرنے والے بن جائیں۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ سیرت مصطفےٰ ، المدینۃ العلمیہ ، کراچی
[1] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ، 2 / 392ملخصاً
[2] بخاری ، 3 / 5 ، حدیث : 3952
[3] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ، 2 / 392
[4] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ، 2 / 392 ملخصاً
[5] السیرۃ النبویہ لابن کثیر ، 2 / 392 ملخصاً
[6] مصنف ابن ابی شیبہ ، 20 / 302 ، حدیث : 37815 ملخصاً
[7] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ، 2 / 392
[8] سبل الہدیٰ و الرشاد ، 4 / 32 ملتقطاً
Comments