فریاد
قراٰن میں غورکیجئے
دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا عمران عطاری
(ماہنامہ اپریل 2022)
تابعی بزرگ حضرت سیدنا اَحْنَف بِن قَيس رحمۃُ اللہ علیہ ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے ذہن میں اللہ پاک کے پاکیزہ کلام کی یہ آیتِ مبارکہ آئی : (لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠(۱۰)) (ترجمۂ کنزُالعِرفان : بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں؟)[1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تو چَوکَنّے اور ہوشیار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ آج کے دن مجھ پر لازم ہے کہ میں مُصْحَفْ شریف یعنی قراٰنِ پاک کو دیکھوں تاکہ اس میں اپنا چرچا تلاش کروں یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوجائے کہ میں کن کے ساتھ ہوں اور کن لوگوں سے مشابہت رکھتا ہوں؟ لہٰذا انہوں نےمصحف شریف کھولا توان کی نظر ان آیات پر پڑی : ( كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(۱۹) ) (ترجمۂ کنزالایمان : وہ رات میں کم سویا کرتے اور پچھلی رات استغفار کرتے اور ان کے مالوں میں حق تھا منگتا اور بے نصیب کا۔ )[2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مزید کچھ دیکھا تو ایک اور قوم کا تذکرہ انہیں ان الفاظ میں ملا :
(تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)) (ترجمۂ کنزالایمان : ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امید کرتے اور ہمارے دیئے ہوئے سے کچھ خیرات کرتے ہیں۔ )[3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یوں اچھے لوگوں کےتذکرے پڑھ کر آپ ٹھہر گئے اور (عاجزی کرتے ہوئے) ربِّ کریم کی بارگاہ میں عرض کی : اے اللہ ميں اپنے آپ کو ان لوگوں میں نہیں پہچان پارہا۔ پھر انہوں نے دوبارہ تلاش کرنا شروع کیا ، اب ان کو کچھ لوگ ان الفاظ میں نظر آئے : (وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِۚ-وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۴۵)) (ترجمۂ کنزُ العِرفان : اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا اوروں کا ذکر ہوتا ہے تو اس وقت وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ )[4] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مزید پڑھتے پڑھتے کچھ نافرمان لوگوں کا ایسا حال بھی ملا : (مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲) قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳) وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ(۴۴)وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَۙ(۴۵)وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ(۴۶)حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُؕ(۴۷)) (ترجمۂ کنزُالعِرفان : کون سی چیز تمہیں دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے : ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ باتیں سوچتے تھے۔ اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آئی۔ )[5] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) يہاں پہنچ کر وہ پھر رُک گئے اور کہا ، اے اللہ! ان لوگوں سے تيری پناہ! ميں ان سے بَری ہوں۔ اس کے بعد آپ رحمۃُ اللہ علیہ مزید آیات میں غور کرتے کرتے اس آیت پر پہنچ کر ٹھہرگئے : (وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًاؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۰۲))(ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا تو انہوں نے ایک اچھا عمل اور دوسرا برا عمل ملادیا عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ )[6] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) آپ بےساختہ پکار اُٹھے کہ اےاللہ!یہی وہ لوگ ہیں (یعنی انہی لوگوں میں مجھےاپناتذکرہ مل رہاہے)۔ [7]
اے عاشقانِ رسول! دیکھا آپ نے ہمارے بزرگانِ دین کا اپنے رب کے کلام سے کس طرح کا لگاؤ ہوا کرتا تھا اور وہ کس خوب صورت انداز سے قراٰنِ کریم کو پڑھا کرتے اور اس میں غور و فکر کیا کرتے تھے ، ہمیں بھی ان کی طرح اپنی سوچوں کو پاکیزہ رکھنا چاہئے اور اپنی سوچوں کے رُخ کو اپنے رب کے کلام کی طرف موڑنا چاہئے ، اسے پڑھنا اور اس میں اس طرح غور و فکر کرتے رہنا چاہئے کہ ایمان والوں کے جو اچھے اعمال قراٰنِ کریم نے بیان فرمائے ہیں اور ان پر جو اُخْرَوِی اجر و ثواب کی بشارتیں عطا ہوئی ہیں کیا ہم بھی ان اعمالِ صالحہ کو بجالا کر اس ثواب کو حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ اسی طرح قراٰنِ کریم میں بیان کئے گئے نافرمانوں کے جو کام ہیں ان کے متعلق بھی غور کرنا چاہئے کہ ہم نے خود کو ان کاموں سے بچا کر رکھا ہے یا نہیں؟ یقیناً اس انداز سے قراٰنِ کریم کو پڑھنے کے لئے ہمیں اپنے رب کے کلام کو سمجھنا پڑے گا اور اسے سمجھنے کیلئے اس کے ترجمے اور تفسیر سے آگاہی حاصل کرنی پڑے گی ، تصوف کے بہت بڑے امام حضرت سیِدنا شیخ ابو طالب مکی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قَدْ اُمِرْنَا بِطَلْبِ فَهْمِ الْقُرْآنِ كَمَا اُمِرْنَا بِتِلَاوَتِه یعنی بےشک ہمیں قراٰنِ کریم کو سمجھنے کا اسی طرح حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اس کی تلاوت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ [8]
قراٰنِ کریم کا مسلمانوں پر ایک حق : جی ہاں! قراٰنِ مجید کا مسلمانوں پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اس میں غور و فکر کریں ، چنانچہ ارشادِ ربِّ بے نیاز ہے : (اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲)) ترجمۂ کنزُالعِرفان : بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا تا کہ تم سمجھو۔ [9] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان قراٰنِ مجید کو سمجھیں اور اس میں غور و فکر کریں اور اسے سمجھنے کے لئے عربی زبان پر عُبور و مَہارَت ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ کلام عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں یا جنہیں عربی زبان پر عبور حاصل نہیں تو انہیں چاہئے کہ اہلِ حق کے مُسْتَنَد علما کے تَراجِم اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں تاکہ وہ قراٰنِ مجید کو سمجھ سکیں۔ [10] نزولِ قراٰن کے مقاصد بیان کرنے والی آیتوں میں سے ایک آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)) ترجمۂ کنزالایمان : یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں۔ [11] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قراٰنِ کریم میں کون سا غور و فکر معتبر ہے؟ یقیناً قراٰنِ پاک میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس میں وہی غور و فکر مُعْتَبر اور صحیح ہے جو صاحبِ قراٰن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحبت یافتہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعین رحمۃُ اللہ علیہم کے علوم کی روشنی میں ہو کیونکہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو جن پر قراٰن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں کا تھا ، وہ یقیناً معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے دورِ جدید کے اُن نِت نئے مُحققین (Researchers) سے بچنا ضروری ہے جو چودہ سو سال کے علما ، فُقہا ، محدثین و مفسرین اور ساری امت کے فَہم کو غلط قرار دے کر قولاً یا عملاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قراٰنِ کریم اگر سمجھا ہے تو ہم نے ہی سمجھا ہے ، پچھلی ساری امت جاہل ہی گزر گئی ہے۔ یہ لوگ یقیناً گمراہ ہیں۔ [12] میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! نُزولِ قراٰن کے اس مبارک مہینے میں آپ بھی اپنے رب کے پاکیزہ کلام کی تلاوت کیجئے ، نیز قراٰنِ کریم کا جو آپ پر حق ہے کہ آپ اسے سمجھیں ، اس حق کو ضرور ادا کیجئے اور اس کے لئے اس کا ترجمہ اور مستند تفاسیر پڑھئے مثلاً تفسیر صراطُ الجنان / خزائنُ العرفان یا پھر نُورُالعرفان کا ضرور مُطالعہ کیجئے۔ اللہ کریم ہمیں اس بابرکت مہینے میں اپنا بابرکت کلام پڑھنے ، سمجھنے اور زندگی بھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
[1] پ17 ، الانبیآء : 10
[2] پ26 ، الذّٰریٰت : 17تا19
[3] پ21 ، السجدۃ : 16
[4] پ24 ، الزمر : 45
[5] پ29 ، المدثر : 42تا47
[6] پ10 ، التوبہ : 102
[7] مختصرقیام اللیل وقیام رمضان وکتاب الوتر ، جزء : 1 ، ص42
[8]قوت القلوب ، 1 / 104
[9] پ12 ، یوسف : 2
[10] صراط الجنان ، 4 / 522ملخصاً
[11] پ23 ، صٓ : 29
[12] صراط الجنان ، 2 / 258ملخصاً۔
Comments