ہماری کمزوریاں

حوصلہ شکنی کا جواب

(The answer to discouragement) (دوسری اور آخری قسط)

* مولانا ابورجب محمد  آصف عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2022

شام کا منظر تھا ، سورج کی روشنی سُرخ ہوتی جارہی تھی ، ہریالے کھیتوں میں ابھی بھی کچھ لوگ اپنا کام مکمل کرنے میں مصروف تھے۔ کھیتوں کے درمیان پرانے زمانے کا ایک گہرا کنواں (well) موجود تھا جو سوکھ چُکا تھا۔ اتنے میں ایک اجنبی نوجوان وہاں آنکلا ، ایک تو روشنی کم دوسرا راستہ انجان! وہ نوجوان اس کنویں میں جاگرا۔  زندگی باقی تھی ، اس کی جان تو بچ گئی لیکن چوٹوں کی وجہ سے کافی دیر زخمی حالت میں وہیں پڑا رہا ، آخر حالت کچھ سنبھلی تو اسے وہاں سے نکلنے کی فکر لاحق ہوئی ، اس نے کنویں کی دیواروں پر لگی لوہے کی زنگ آلود ٹوٹی پھوٹی سیڑھی سے اوپرچڑھنے کی کوشش شروع کردی۔ اتنے میں کئی لوگ کنویں کے کنارے پر جمع ہوچکے تھےاور ہاتھ ہلا ہلا کر چیخ چیخ کر اس سے کہہ رہے تھے کہ یہاں کئی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ، تم بھی اس کنویں سے باہر نہیں نکل پاؤگے ، یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ لوگ جتنا چیختے چِلّاتے وہ نوجوان اتنا ہی زیادہ جوش (Excitement) کے ساتھ باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا۔ بالآخر طویل کوشش کے بعد وہ کنویں سے باہر آنے میں کامیاب ہوگیا اور لوگوں کو حیران کردیا۔ جب ایک آدمی نے اس کا نام اور پتا پوچھا تو معلوم ہوا کہ کنویں میں گرنے والا نوجوان نہ بول سکتا ہے   نہ سُن سکتا ہے   (یعنی گونگا بہرہ (Mute and deaf) ہے )۔

اب لوگوں کو سمجھ آئی کہ جب وہ چیخ چیخ کر اس کی حوصلہ شکنی (Discouragement)کررہے تھے تو وہ نوجوان بہرہ ہونے کی وجہ سے ان کے اس انداز کو حوصلہ افزائی (Encouragement) سمجھ رہا تھا۔ یوں اس نے ایک منفی بات کو اپنے حق میں مثبت لیا اور ہمت پکڑی تو باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

قارئین! انسان کو زندگی میں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے دونوں قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ البتہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم حوصلہ شکنی کے جواب میں کیا کرتے ہیں !تھک ہار کر گر جاتے ہیں یا پھر مزید جذبے کے ساتھ کامیابی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر ہم بھی اپنی سوچ مثبت(Positive) بنالیں اور کوئی کتنی ہی حوصلہ شکنی کرے اس کی سُنی ان سُنی کردیں اور کامیابی کے لئے مزید محنت اور کوشش کریں تو اللہ کی رحمت سے ایک دن آئے گا کہ حوصلہ شکنی کرنے والے ہماری کامیابی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے

حوصلہ شکنی کے منفی اثرات اور نقصانات سے بچنے کے لئے 13 مفید ٹِپس پیش کرتا ہوں :

(1) جہاں سے حوصلہ افزائی کی امید ہو وہیں سے حوصلہ شکنی ہوجائے تو خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ، اس لئے اگر اس شعر کے مِصداق بن جائیں گے تو ایزی رہیں گے :

نہ ستائش کی تمنا مجھے نہ خطرہ ٔذم

نہ کسی واہ کی خواہش نہ کسی آہ کا غم

(یعنی مجھے تعریف کی خواہش ہے نہ مذمت کا خوف ، اسی طرح مجھے اپنی واہ وا کروانے کی تمنا ہے نہ کسی کی آہ کا غم ہے۔ )

(2)اپنا مزاج دریا کی طرح بنا لیجئے جو رُکتا نہیں ہے بلکہ پتھروں اور چٹانوں کے درمیان سے راستہ بنا کر چلتا رہتا ہے۔

(3)دل بڑا رکھئے ، چکنا شیشہ نہیں بلکہ فوم کے گدے (Foam Mattress) کی طرح بنیں جس پر گرم یا ٹھنڈا جو بھی پانی گرے اسے پی جاتا ہے۔

(4)ناکامی اور حوصلہ شکنی کامیابی کے راستے میں آنے والے نوکیلے پتھر ہیں ، ان سے خوفزدہ ہوں گے تو کامیابی کا سفر رُک جائے گا اس لئے اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور حوصلہ شکنی کا ڈرجتنا نکال سکتے ہیں نکال دیجئے۔

(5)لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں؟اس سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہم خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

اس حوالے سے انسانوں کی دوقسمیں ہیں :

ایک وہ جو اپنے بارے میں وہی منفی بات کہہ رہے ہوتے ہیں جو لوگ ان کے بارے میں کہہ رہے ہوتے ہیں ، لوگ انہیں ڈرپوک ، کم ہمت ، نکما اور کمزور قرار دیں تو وہ یہ سوچے بغیر کہ لوگوں کا کہنا غلط (Wrong)بھی تو ہوسکتا ہے ! خود کو یہی کچھ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔

دوسری قسم کے انسان وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے منفی اور حوصلہ شکن تبصروں کے جواب میں خود کو وہی سمجھتے ہیں جو ان کا دل ، دماغ ، مشاہدہ ، مہارت اورتجربہ انہیں سکھاتا ہے کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا غلط بھی تو ہوسکتا ہے۔ اس لئے اگر حوصلہ ہارنےسے بچنا چاہتے ہیں تو ہر کسی کے کمنٹس اور فیڈ بیک کو سیریس نہ لیا کریں۔

(6)حوصلہ شکنی اسی کی ہوتی ہے جس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی اسی سے ہوتی جو کام کرتا ہے ، حادثہ اسی کار کو پیش آسکتا ہے جو روڈ پر آتی ہے گیرج میں کھڑی گاڑی کو نہیں ، اس لئے ہمت بڑی رکھئے۔

(7)لوگوں نے کمنٹس کو آسان سمجھ رکھا ہے ، جس کو دیکھو بن مانگے کمنٹس پاس کرنے پر لگا ہوا ہے ، کتاب کے چند صفحات بھی نہیں پڑھے ہوتے لیکن صرف نام بتا کر ایسوں سے ماہرانہ کمنٹس لئے جاسکتے ہیں ، خاص کر کمزور اور ناکامیوں کے مارے لوگ ان کا آسان شکار ہوتے ہیں ، اس لئے ایسے کچے اور کمزور بھی نہ بنئے کہ جس کی کوئی نہیں سُنتا وہ آسانی سے آپ کو سُنا کر حوصلہ شکنی (Discouragement)کرکے چلا جائے ، بلکہ خود کو مضبوط کیجئے کہ آپ کو وہی سنائے جس کی بات سننے کے قابل ہو ، اس بات کو یوں سمجھئے کہ جنگل سے گزرنے والی سڑک کو اگر کوئی چھوٹا جانور لومڑی وغیرہ پار کررہا ہو  تو ٹریفک نہیں رُکتی بلکہ سائیکل موٹر سائیکل والا بھی اسے شش شش کرکے جلدی بھگانے کی کوشش کرکے گا لیکن اگر کوئی طاقتور جانور ہاتھی یا چیتا یا جنگل کا بادشاہ شیر گزر رہا ہو تو500 میٹر بلکہ اس سے بھی دور ہی ٹریفک رُک جائے گی ، اب نہ کوئی آواز نکالے گا نہ ہارن مارے گا بلکہ شیر کے گزرنے کا انتظار کرے گا۔ اب سوچ لیجئے کہ آپ شیر بننا چاہیں گے یا لُومڑی؟

 (8)حوصلہ شکنی ہونے میں قصور اپنا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص ناکامیوں کے باوجود ہماری حوصلہ افزائی کررہا ہوتا ہے ، کامیابی کے لئے گائیڈ لائن دے رہا ہوتا ہے لیکن ہم ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ، ایساشخص تنگ آکر جب تنقید (Criticize) کرتا ہے تو ہم رونا شروع کردیتے ہیں کہ جی ہماری حوصلہ شکنی ہورہی ہے ، ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ اس حوصلہ شکنی کا قصور وار کون ہے ! وہ یا آپ؟

(9)نیا آئیڈیا شیئر  کرتے وقت ، نیا کام شروع کرتے وقت ، کام کرنے کی نئی تکنیک اپناتے وقت ذہنی طور پر حوصلہ شکنی کے لئے تیار رہیں کیونکہ ضروری نہیں جوبات آپ کی سمجھ میں آئی ہے دوسرے بھی اس کو  اسی طرح سمجھ سکیں ، اس لئے ممکن ہے کہ وہ آپ کے آئیڈیاز اور انداز میں تبدیلی کی تجویز کو ہنسی میں اڑا دیں۔ زندگیوں میں انقلاب لانے والوں کی حوصلہ شکنی کی مثال دیکھنی ہو تو پانچویں خلیفۂ راشد حضرت سَیّدُنا عمر بن عبدالعزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ  کو دیکھ لیجئے ، جنہوں نے طاقتوروں سے جاگیریں لے کر ان کے اصل مالکوں کو واپس دلوائیں ، ایسا معاشی انقلاب(Revolution) لائے کہ زکٰوۃ لینے والے نہ ملتے تھے ، لیکن اس کے جواب میں پاور فل لوگ جس میں آپ کے خاندان کے بعض افراد بھی شامل تھے ، آپ کے خلاف ہوگئے ، آپ کو اشاروں کنایوں میں سمجھایا پھر دھمکایا مگر آپ ڈٹے رہے ، پھر بالآخر دشمنوں نے اس عظیم ہستی کو غلام کے ہاتھوں زہر دلوا دیا ، یوں صرف اڑھائی سال میں تاریخی انقلاب لانے والے اسلامی حکمران حضرت سَیّدُنا عمر بن عبدالعزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ    وصال فرماگئے۔ اسی طرح جدید ایجادات میں ہوائی جہاز کو دیکھ لیجئے کہ تیز ترین ٹیکنالوجی کی بدولت اس کے ذریعے سفر کتنا جلدی اور آسانی سے طے ہوجاتا ہے ، اس میں کیسی کیسی سہولتیں میسر ہوتی ہیں ، آپ کا کیا خیال ہے کہ جب اس کا بنیادی آئیڈیا سوچنے والے نے لوگوں سے اپنا خیال شیئر کیا ہوگا توسننے والوں نے کندھوں پر اٹھا کر حوصلہ افزائی کی ہوگی یا یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کی ہوگی کہ دماغ تو ٹھیک ہے کہ تمہاری بنائی ہوئی چیز ہوا میں اُڑے گی اور وہ بھی لوہے کی!

(10) بعض لوگ خود پر ہونے والی ہر تنقید کو حوصلہ شکنی سمجھتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کیونکہ تعمیری تنقید حوصلہ شکنی نہیں ہوتی ، ایسی تنقید سے خود کو بہتر کرنے میں مدد لیجئے۔ تنقید کرنے والا اگر بچّہ بھی ہوتو غور ضرور کیجئے ، شاید وہ درست کہہ رہا ہو۔

(11)کچھ لوگوں کا انداز (Style)ہوتا ہے کہ انہیں کیسا ہی بہترین کام کرکے دکھا دیں وہ حوصلہ شکنی کئے بغیر رہ نہیں سکتے ، ’’اس میں نیا کیا ہے؟‘‘’’کچھ خاص نہیں!‘‘ ’’مزہ نہیں آیا!‘‘ ’’قابل تعریف نہیں ہے!‘‘ اس طرح کے جملے ان کے ہونٹوں سے نکلتے رہتے ہیں۔ ایسوں کا حل یہی ہے کہ اول تو انہیں سیریس نہ لیجئے یا اگر آپ میں ہمت ہے تو ان سے فریاد کیجئے کہ اس کام میں جو فالٹ ہے اس کی نشاندہی کرکے درست بھی کردیجئے جیسا کہ ایک شخص نے قدرتی منظر کی پینٹنگ بنائی اور آرٹ گیلری میں رکھ دی جس کے نیچے لکھا : ’’جہاں فالٹ ہو ، اس کی نشاندہی کردیجئے‘‘ چند گھنٹوں بعد دیکھا کہ پینٹنگ گول گول نشانات سے بھری ہوئی تھی ، بڑا دل برداشتہ ہوا اور اپنے ٹرینر کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتائی ، ٹرینر نے اسے ایک پینٹنگ اور بنانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس کے نیچے لکھنا : ’’جہاں فالٹ ہودرست کردیجئے‘‘ اس نے ایسا ہی کیا ، سارا دن گزرنے کے بعد شام کو پینٹنگ دیکھی تو اس پر ایک بھی نشان نہ تھا ، وہ پہلے جیسی ہی تھی۔

(12)ضروری نہیں کہ ہماری حوصلہ شکنی دوسرے ہی کریں کبھی کبھی ہم خود بھی اپنی حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ اس طرح کہ ہم دوسروں سے اپنامنفی تقابل کرتے ہیں ، اپنی فیلڈ کی خوبیوں پر نظر کرنے کے بجائے دوسروں کے شعبے سے متأثر ہوجاتے ہیں ، غیرحقیقی توقعات باندھتے ہیں ، غلط فیصلے کثرت سے کرتے ہیں ، اجتماعی کام کے لئے درست افراد نہیں چُنتے ، پھر جب نتیجہ مایوس کُن نکلتا ہے تو دل ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس سے بھی بچئے۔

(13)آپ پہلے اور آخری فرد نہیں ہیں جس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حوصلہ شکنی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

ہمارے مکی مدنی آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی!(معاذ اللہ )مجنون کہہ کر پکارا گیا ، یہی نہیں بلکہ بعض رشتہ دار مخالفت پر اتر آئےجن میں ابولہب جو آپ کا چچا تھا پیش پیش تھا ، تین سال تک آپ کا اور خاندان والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا اس دوران آپ شعب ابی طالب نام کے علاقے میں محصور رہے ، سجدے کی حالت میں اونٹنی کی بچہ دانی مبارک کمر پر رکھ دی گئی ، طائف کے سفر میں نادانوں نے پتھر برسائے ، مشرکینِ مکہ کے ناروا سلوک کی وجہ سے آپ کو اپنا شہرِ میلاد مکۂ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ جانا پڑا ، آپ کو اتنا ستایا گیا کہ فرمایا : اللہ کی راہ میں ، میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی ، 4 / 213 ، حدیث : 2480)لیکن آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ جاتی ہیں۔

 پھر صحابۂ کرام کو اسلام آوری پر حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا ، کسی کی ماں نے بات چیت چھوڑ دی ، تو کسی کو باپ نے ظلم کا نشانہ بنایا ، کسی کو تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر وزن رکھ دیا جاتا اور مطالبہ کیا جاتا اسلام چھوڑدو لیکن راہِ حق پر چلنے والوں کے قدم ذرا بھی نہیں ڈگمگائے۔

 بزرگانِ دین کے حالات و واقعات پڑھئے تو آپ کو سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ وہ حوصلہ شکنی کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں دیکھنا چاہیں تو انٹرنیشنل اسلامک اسکالر شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ   کو دیکھ لیجئے ، آپ دنیائے اسلام کی عظیم تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی اور امیر ہیں ، کم و بیش 41 سال پہلے جب آپ دعوتِ اسلامی کے کام کو بڑھانے کے لئے کوشاں تھے ، حوصلہ افزائی کرنے والے کم اور حوصلہ شکنی کرنے والے زیادہ تھے لیکن امیرِاہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی اپنے مقصد سے سچی لگن ، کام کرنے کی دُھن اور مسلمانوں کو نیکی کے راستے پر گامزن کرنے کی کڑھن رنگ لائی اور اَلحمدُلِلّٰہ آج دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی سے لاکھوں کروڑوں عاشقانِ رسول وابستہ ہیں۔

مجھے ایک بہت ہی سلجھے ہوئے باوقار اسٹوڈنٹ نے اپنے بچپن کا واقعہ بتایا کہ میں نے ابھی حفظِ قراٰن شروع ہی کیا تھا کہ میرے ایک عزیز نے میری پوری فیملی کے سامنے اچانک مجھ سےزبانی آیات مختلف مقامات سے سننا شروع کردیں ، میں بچّہ تھا گھبرا گیااس لئے بھرپور اعتماد سے نہ سنا سکا اس پر میرے اس عزیز نے حوصلہ شکن تبصرہ کیا کہ حفظ کرنا اس کے بس کی بات نہیں ، بلکہ یہ حفظ کے نام پر آپ کو بے وقوف بنارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر طیش میں آکر زندگی میں میرے  بڑے بھائی نے سب کے سامنےمیری پہلی مرتبہ پٹائی کی ، جس پر میرا ننھا منا دل ٹوٹ کررہ گیا لیکن مجھے اللہ کی رحمت نے سنبھالا اور میں نے حفظِ قراٰن جاری رکھا اور ایک دن وہ آیا کہ میں حافظِ قراٰن بھی بنااورعالم کورس کے پانچویں سال کا طالبِ علم بھی ہوں۔ کئی مرتبہ تراویح میں قراٰنِ پاک سنانے کی سعادت بھی پاچکا ہوں۔

اے عاشقانِ رسول! اس طرح کے کئی واقعات خود آپ یا آپ کے جاننے والوں کے ساتھ پیش آئے ہوں گے۔ اس لئے دل بڑا رکھئے اور اپنا ذہن بنالیجئے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے نے اپنا کام کیا ، اس کے بعد آپ کو چاہئے کہ کامیابی کی طرف اپنا سفر تیز کردیں۔ اللہ پاک ہمیں نیک وجائز مقاصد میں کامیابی نصیب کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر،رکن مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code