حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےہجرتِ مدینہ کے چھٹے یا ساتویں سال حضرت سیّدنا حاطِب بِن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط دے کر اِسْکَنْدریہ (Alexandriaجو کہ اب مصر کا شہر ہےاس) کےبادشاہ کی جانب بھیجا۔ اس بادشاہ کا لقب مُقَوْقِساورنام جُرَیْج بن مینا تھا۔ یہ نہایت اَخلاق سے پیش آیا اور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خط سینے سے لگاکر کہنے لگا: اس نبی کی تشریف آوری کا یہی زمانہ ہےجس کی تعریف و توصیف ہم اللہ کریم کی کتاب میں پاتے ہیں۔ ان کی صفات میں سے ہے کہ وہ دو بہنوں کو ایک ساتھ غلامی یا نکاح میں جمع نہیں فرماتے،تحفہ قبول فرماتے جبکہ صدقہ کھانے سے گریز کرتے ہیں،ان کے ہم نشیں مساکین ہیں اور ان کے کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت ہے۔( طبقات ابن سعد،ج 1،ص107، مدارج النبوت،ج 2،ص226، شرح زرقانی علی المواہب،ج4،ص459، حسن المحاضرہ،ج1،ص84) بادشاہ کا نذرانہ پھر اس نے بارگاہِ رسالت میں کچھ قیمتی تحائف بھیجے جن میں ایک ہزارمثقال سونا، 20قِبطی کپڑے، ایک خچر(جس کا نام دُلدُل تھا)، ایک دراز گوش(یعنی گدھا جس کا نام بعض روایات کے مطابق یعفور تھا)، شہد اور دو باندیاں تھیں۔ یہ دونوں سگی بہنیں تھیں، ایک کانام ماریہ قِبْطِیّہ اور دوسری کا سِیرین(رضی اللہ تعالٰی عنہما)تھا۔ جب یہ تحائف (اورصدقہ)بارگاہِ رسالت میں پہنچے تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہدیہ قبول فرمایا اورصدقہ واپس کردیا۔ (حسن المحاضرہ،ج1،ص84، شرح زرقانی علی المواہب،ج 4،ص459،460) قبولِ اسلام نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دونوں بہنوں کوایک ساتھ اپنی غلامی میں جمع کرناپسند نہ فرمایا اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے اِنتخاب کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی: اے اللہ! اپنے نبی کے لئے ایک کو منتخب فرما چنانچہ حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اللہ پاک نے اپنے حبیب کے لئے یوں منتخب فرمایا کہ جب آپ علیہ السَّلام نےدونوں کنیزوں پر اسلام پیش فرمایا تو حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فوراً اسلام قبول کرلیا جبکہ آپ کی بہن حضرت سیّدتنا سِیرین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کچھ دیر بعداسلام قبول کیا۔ پھرحضرت سیّدتنا سِیرین رضی اللہ تعالٰی عنہا کوآپ علیہ السَّلام نےحضرت سیّدنا حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہبہ کردیا جن سے حضرت سیّدنا عبد الرحمٰن بن حسان رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئے۔ (حسن المحاضرہ،ج1 ،ص84،شرح زرقانی علی المواہب،ج4،ص460) حضور کی کرم نوازیاں حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بہت پسند فرماتے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر کرم نوازی فرماتے ہوئے علیحدہ مکان عطا فرمایا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مختلف اوقات میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس تشریف لے جایا کرتے۔ ذوالحجۃُ الحرام 8 ہجری میں انہیں سے شہزادۂ رسول حضرت سیّدنا ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت ہوئی۔ (طبقات ابن سعد،ج1،ص107،الاصابہ،ج8،ص311) شیخین کی عقیدت حضور علیہ الصلٰوۃ وَ السَّلام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ضروریاتِ زندگی کا اہتمام فرماتےرہے، پھر امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس ذمہ داری کو سرانجام دیا۔ وصال حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا وصال عہدِ فاروقی میں محرّم ُالحرام 16 ہجری کو ہوا۔(الاصابہ،ج 8،ص311) امیرُ المؤمنین حضرت سیّدناعمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی نمازِ جنازہ پڑھائی جنّتُ البقیع میں تدفین ہوئی۔ (المنتظم،ج 4،ص218، استیعاب،ج 4،ص465)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔

اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… شعبہ فیضان اولیاوعلما ،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں تشہد میں مَردوں کی طرح ہی بیٹھیں۔ کیا عورتیں مَردوں کی طرح ہی بیٹھیں گی یا مختلف طریقہ ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورتیں تشہد میں مَردوں کی طرح نہیں بیٹھیں گی بلکہ ان کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ توَرُّک کریں یعنی اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر بائیں سرین پر بیٹھیں کیونکہ ایک تو اس طرح بیٹھنا بھی حضور علیہِ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام سے ثابت ہے اور اس طریقے سے بیٹھنے میں عورتوں کے لئے آسانی بھی ہے اور اس میں پردے کی رعایت بھی زیادہ ہے اور عورتوں کے لئے زیادہ مناسب وہی طریقہ ہوتا ہے جس میں پردے کی رعایت زیادہ ہو جیسا کہ سجدے کا معاملہ ہے کہ اس میں مَردوں کو حکم ہے کہ وہ کہنیاں زمین سے، بازو پہلوؤں سے اور پیٹ رانوں سے دور رکھیں لیکن عورت کو اس کے برخلاف سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم ہے یہی معاملہ بیٹھنے کے متعلق بھی ہے جیسا کہ درج ذیل عبارات سے واضح ہے۔روایات میں ہے کہ عورتوں کو مَردوں کی طرح بیٹھنے سے منع کیا گیا اور پہلے ان کو حکم تھا کہ وہ چار زانو بیٹھیں پھر حکم دیا گیا کہ وہ چار زانو کے بجائے سمٹ کر اور باہم اعضا کو ملا کر بیٹھیں جو کہ تَوَرُّک کا طریقہ ہے چنانچہ مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:كن النساء يؤمرن ان يتربعن اذا جلسن في الصلاة، ولا يجلسن جلوس الرجال ترجمہ:عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں چار زانو ہو کر بیٹھیں اور مَردوں کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،ج 1،ص303) مسندِ ابی حنیفۃ میں حضرت نافع سے مروی ہے کہ عن ابن عمر رضي الله عنهما، انه سئل كيف كن النساء يصلين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال:كن يتربعن، ثم امرن ان يحتفزن ترجمہ:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سوال کیا گیا کہ عورتیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں کیسے نماز ادا کیا کرتی تھیں تو فرمایا: کہ پہلے وہ چار زانو ہو کر بیٹھا کرتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ سمٹ کر بیٹھیں۔ سمٹ کر بیٹھنے کی وضاحت کرتے ہوئے مشہور محدث حضرت علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی لکھتے ہیں: اي يضممن اعضاءهن بان يتوركن في جلوسهن ترجمہ:یعنی عورتیں اپنے اعضا ملا کر رکھیں بایں طور کہ وہ بیٹھنے میں تَوَرُّک کریں (دونوں ٹانگیں ایک طرف نکال کر سرین پر بیٹھیں) ( شرح مسند ابی حنیفۃ لملا علی قاری،ج 1،ص191) صحاح جوہری میں ہے: وفى الحديث عن علي رضي الله عنه اذا صلت المراة فلتحتفز اي تتضام اذا جلست واذا سجدت ترجمہ: اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیثِ پاک میں ہے:جب عورت نماز پڑھے تو وہ سمٹے۔ یعنی جب وہ بیٹھے اور جب وہ سجدہ کرے توباہم اعضا ملائے رکھے۔ (الصحاح تاج اللغۃ ،ج 3،ص874) مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے: عن ابراهيم، قال: تجلس المراة من جانب في الصلاة ترجمہ: حضرت ابراہیم (نخعی) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: عورت نماز میں ایک جانب ہو کر بیٹھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،ج1،ص304) ہدایہ میں ہے:ان كانت امراة جلست على اليتها اليسرى واخرجت رجليها من الجانب الايمن لانه استر لها ترجمہ:اگر عورت ہے تو وہ اپنی بائیں سرین پر بیٹھے اور اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال لے کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ پردے والی کیفیت ہے۔ (ہدایہ،ج 1،ص53) علّامہ کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی لکھتے ہیں:اما المراة فانها تقعد كاستر ما يكون لها فتجلس متوركة عورت اس ہیئت پر بیٹھے جس میں اس کا پردہ زیادہ ہو لہٰذا وہ تورک کی حالت میں بیٹھے۔(بدائع الصنائع،ج 1،ص211) امامِ اہلِ سنّت، سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن ایک سوال کے جواب میں ضمناً اس مسئلے پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں(فارسی عبارت کا ترجمہ کچھ یوں ہے): اس کی ایک نظیر مسئلہ قعود ہے کہ اس کے دونوں طریقے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم سے منقول ہیں ہمارے علماء نے مَردوں کے لئے دایاں پاؤں کھڑا کرنا اور بائیں پر بیٹھنے کو اختیار کیا ہے کیونکہ یہ شاق ہے اور بہتر عمل وہی ہوتا ہے جس میں مشقت ہو اور خواتین کے لئے تورک کا قول کیا کیونکہ اس میں زیادہ ستر اور آسانی ہے اور خواتین کا معاملہ ستر اور آسانی پر مبنی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 6،ص149)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

محمد ساجد عطاری مدنی عبدہ المذنبفضیل رضا عطاری عفا عنہ الباری


Share

حضرت سیّدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

دودھ اللہ کریم کی ایسی پیاری نعمت ہے جو ہرعمر کے افراد کےلئے فائدہ مند ہے اس نعمت کے جتنے فائدے ہیں اگر بے احتیاطی کی جائے تو یہ نعمت اتنی ہی جلدی خراب یا ضائع بھی ہوجاتی ہے لہٰذا یہاں دودھ کی قدر اور حفاظت کے بارے میں چند مدنی پھول پیش کئے جاتے ہیں: دودھ خراب ہونے سے بچانے کے طریقے ٭کچا دودھ جلد از جلد اُبال لیں یا فریج میں محفوظ کر لیں کیونکہ اُبالے یا ٹھنڈا کئے بغیر زیادہ دیر تک رکھے رہنے سے اس کے جلد خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ٭جس برتن میں دودھ رکھا جائے وہ صاف ستھرا اور ہرقسم کی کھٹائی مثلاً لیموں، لسی اور دہی وغیرہ کے اثرات سے پاک ہو ورنہ دودھ خراب ہو جائےگا۔دودھ ابالنے کی احتیاطیں ٭جب دودھ اُبل کر برتن سے باہر آنے لگے تو فوراً اس پر پانی کی چھینٹیں مار یں یا آنچ ہلکی کر کے اسے دودھ کے چمچ وغیرہ سے ہلائیں تاکہ دودھ باہر نہ گرے۔ ٭ ایسے چھوٹے برتن میں دودھ نہ اُبالیں جو لبالب بھرجاتا ہو، کیونکہ اس صورت میں دودھ اُبلتےہی گرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ٭دودھ اُبالتے وقت ممکن ہو تو چمچ ہلاتے رہیں یا پھر ہلکی آنچ پر اُبالیں۔ دودھ کے برتن کو چولہے پر رکھ کر عام طور پر گھر والے اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ ابھی جوش آنے میں دیر ہے ،جب جوش آتا ہے اور دودھ اُبل جاتا ہے تو انہیں ہوش آتا ہے یوں ذرا سی غفلت سے تھوڑی سی نعمت کا ضیاع ہوجاتا ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ٭دودھ کو ایک سے دو اُبال آجائیں تو چولہے سے اُتار لیں کہ زیادہ اُبالنے سے اس کی غذائیت کم ہوجاتی ہے نیز دودھ اور بالائی برتن کے ساتھ چپک جاتی ہے اور بعض اوقات تو زیادہ بے احتیاطی کی وجہ سے برتن کے ساتھ ہی جل جاتی ہے۔ دودھ خراب ہونے لگے تو ٭اگر دودھ خراب ہونے لگے تو تھوڑا سا کاسٹک سوڈا ملا کر اُبال لیں اور پھر دہی جما لیں اس طرح دودھ ضائع نہیں ہوگا۔ دودھ خراب ہونے کی علامت یہ ہے کہ دودھ گاڑھا ہونے لگتاہے، ذائقے میں تُرشی آجاتی ہے اور ہلکی ہلکی بُو آنے لگتی ہے۔ ٭دودھ کے برتن ڈھانپ کر رکھیں کہ بعض اوقات گھروں میں پائے جانے والے حَشَراتُ الارض(کیڑے مکوڑے) اس میں گر جاتے ہیں۔ دودھ خراب ہوجائے تو٭اگر دودھ پَھٹ جائے تو اسے مت پھینکیں بلکہ اس میں شہد یا چینی ڈال کر چُولہے پر چڑھا دیں یہاں تک کہ اِس کا پانی جَل جائے اور کھویا رَہ جائے، یہ کھانے میں انتِہائی لذیذ ہوتا ہے۔ (فیضانِ سنّت، ص576 ماخوذاً) ٭اگر دودھ سوڈا بنانا ہو تو پہلے دودھ اور سوڈے کی بوتل کو اچھی طرح ٹھنڈا کر لیں پھر مِکس کریں، گرم دودھ میں سوڈا ہرگز مت ڈالیں ورنہ دودھ پَھٹ جائے گا۔ احتیاط کچا دودھ اگر تازہ ہو تواسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر زیادہ دیر گزر گئی یا دکان سےخریدا ہو تو بغیر اُبالے ہرگز استعمال نہ کریں کہ اس میں مختلف جراثیم شامل ہوجاتے ہیں، نیز ٭ہمارے یہاں کھلا دودھ عموماً پلاسٹک کی تھیلی یا بند دودھ گتے کے ڈبے میں ملتا ہے دودھ نکالنے کے باوجود اس تھیلی یا ڈبے میں دودھ کے کئی قطرے لگے رہ جاتے ہیں انہیں بھی ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

Articles

Comments


Security Code