دوست کسے بنائیں؟

انسانی زندگی میں  بعض لوگوں سے تعلقات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں جنہیں کسی رشتے کا نام تو نہیں دیا جاتا لیکن انہیں نبھانا ضروری سمجھا جاتاہے، ان میں ایک اہم تعلق دوستی (Friendship) کا بھی ہے۔ دوستی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے معاشرے میں تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔

روزمرّہ کے مشاہدات اور تاریخ (History) کے مطالعہ سے بخوبی آشکار ہوتاہے کہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت کی بھلائی والے کاموں میں بھی لگے رہے، جبکہ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو برے دوستوں کی وجہ سے دنیا و آخرت کی بربادی والے راستے پر چل نکلے۔ ایک مسلمان کو کسے دوست بنانا چاہئے اور اسلامی معاشرے میں دوستی کے تقاضے کیا ہیں؟ آئیے اس بارے میں چند مدنی پھول ملاحظہ کرتے ہیں:

دوست بنانے سے پہلےیادرکھئے! دوستی کے نتائج فقط دنیوی معاملات تک ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کا بندے کے دین و آخرت پر بھی اثر پڑتاہے، لہٰذا کسی سے بھی دوستی کرنے سے پہلے رسولِ کریم، رءوف رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمانِ عظیم لازمی پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ”اَلْمَرْءُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ فَلْیَنْظُرْاَحَدُکُمْ مَّنْ یُّخَالِلُیعنی آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (مستدرک ،ج5،ص237،حدیث:7399)

دوستی کس سے کریں؟ دوستی اور مصاحبت ہمیشہ نیک، صالح اور قراٰن و سنّت کے احکام پر عمل پیرا ہونے والوں کی ہی اختیار کرنی چاہئے، کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے۔ اچھے اور بُرے دوست کی مثال اس حدیث پاک سے سمجھئے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اچھے برے ساتھی کی مثال مُشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے) والے کی طرح ہے، مُشک اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تُو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تُو اس سے بدبو پائے گا۔(مسلم، ص1084،حدیث 6692)

یاد رکھئے!اچھے دوست کی ہم نشینی سَعادتِ دارین (دنیاو آخرت کی بھلائی) ہے جبکہ بُرے دوست کی صحبت دنیا کےساتھ ساتھ آخرت بھی تباہ کرسکتی ہے چنانچہ حضرت سیِّدُنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مَرتا ہے تو اس کے اہلِ مجلس اس پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ (مرنے والا ) اہلِ ذکر سے ہوتا ہے تو ذکر والے اور اگر کھیل کود والوں میں سے ہوتا ہے تو کھیل کود والے پیش کئے جاتے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء،ج 3،ص 324، رقم:4115)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسلامی بھائیو! اس روایت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ مرتے وقت اہلِ ذکرکو ملاحظہ کریں تو ہمارے لبوں پر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری ہو۔

اچھے دوست کی پہچان اچھا دوست اور ہم نشیں کیسا ہوتا ہے اس کے بارے میں دو فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے: (1)اچھا ہم نشیں وہ ہے کہ اس کے دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں اضافہ ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ (جامع صغیر، ص247،حدیث:4063) (2)اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے وہ تیری مدد کرے اور جب تو بُھولے تو یاد دلا دے۔ (جامع صغیر، ص244،حدیث:3999)

دوست بُری صحبت میں پڑجائے تو اگر کبھی دوست سے کوئی غلطی ہوجائے یا وہ بُری صحبت میں پڑ جائے تو یک لخت(فوراََ) اس سے دوری اختیار کرنے کے بجائے اسے سمجھانا چاہئے کیونکہ اچھے دوست کے اوصاف میں سے اہم ترین وصف(خوبی) یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوست کو بری صحبت میں نہیں چھوڑتا، بلکہ اسے برائی سے نکالنے کی کوشش کرتا اور اس کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتا ہے، اس کی عملی صورت حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک عمل سے ملاحظہ کیجئے چنانچہ منقول ہے کہ ملک شام کا رہنے والا ایک بہادر شخص امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں آیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ کافی عرصہ تک نہ آیا تو آپ نے اس کے متعلق پوچھا ، آپ کو بتایا گیا کہ وہ شراب کے نشے میں رہنے لگا ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا: عمر بن خطاب کی جانب سے فلاں کی طرف، تم پر سلام ہو، میں تمہارے ساتھ اس اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرتاہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول فرمانے والا، شدید پکڑ کرنے والااور خوب مہربان بھی ہے اس کے سوا کوئی لائِقِ عبادت نہیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ساتھیوں سے فرمایا:اپنے بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سےدعا کرو کہ اللہ کریم اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ قبول کرلے۔ جب وہ مکتوب اس شخص کے پاس پہنچا تو اس نے پڑھنا شروع کیا اور بار بار کہتا جاتا: گناہوں کو بخشنے والا! توبہ قبول کرنے والا! میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ سے ڈرایا ہے اور میری بخشش کا وعدہ کیا ہے۔

(تفسیر ابن ابی حاتم، پ24، غافر، تحت الآیۃ:2،ج10،ص3263،رقم:18416)

ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص باربار یہی کہتا رہا اور خود پر روتا رہا، اس نے شراب نوشی سے بھی سچی پکی توبہ کر لی، جب یہ بات امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہتک پہنچی تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنے کسی بھائی کو بھٹکتا ہوا دیکھو تو اسی طرح اس کا راستہ روکو اور اسے نصیحت کرو اور اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اسے توبہ کی توفیق دے۔(حلیۃ الاولیاء،ج 4،ص 102،رقم:4902)

نیک اعمال کو دوست بنائیےبعض لوگ مال و دولت کو دوست رکھتے ہیں ان کی نظر میں وہی سب کچھ ہوتا ہے، بعض لوگ اپنے اہلِ خانہ (Family Members) کو سب سے بہتر دوست رکھتے ہیں، جبکہ بعض لوگوں کی نظر میں دوستی کے سب سے زیادہ اہل نیک اعمال ہوتے ہیں، کیونکہ بندے کا سب سے اچھا اور بہترین دوست تو وہی ہے جو اس کے ساتھ قبر میں جائے اور وہاں کی وحشت و گھبراہٹ کی گھڑیوں میں اس کا غم خوار ہو اور بے شک ایسا دوست تو صرف نیک اعمال ہی ہیں۔ مذکورہ تین قسم کے دوستوں کا ذکر حدیث پاک میں بھی آیا ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: دوست تین قسم کے ہیں ایک وہ دوست جو کہے: تیرا وہ ہے جو تو نے خرچ کیا اور جو تو نے روکا وہ تیرا نہیں، یہ تیرا مال ہے۔ ایک وہ دوست جو کہتا ہے: میں تیرے مرنے تک تیرے ساتھ ہوں پھر میں لَوٹ جاؤں گا اور تجھے چھوڑ دوں گا، یہ تیرے اہل وعیال اور خاندان والے ہیں جو تیرے ساتھ زندگی گزارتے ہیں یہاں تک کہ تو اپنی قبر میں پہنچ جاتا ہے اور وہ تجھے چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک دوست وہ ہے جو کہے گا: میں تیرے آنے میں بھی تیرے ساتھ ہوں اور جانے میں بھی، وہ تیرا عمل ہے، تَو انسان(حسرت سے ) کہے گا: اللہ کی قسم! (دنیا میں) تُو میرے لئے ان تینوں سے زیادہ آسان تھا۔ (مستدرک،ج1،ص254، حدیث:256)

(بقیہ آئندہ شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ناظم ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code