امام
حسن اورامام حسین لاپتا ہوگئے! دِن کا وقت تھا، مدینہ مُنَوَّرہ
میں ہمارے پیارے نبی صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم اپنے صحابۂ کِرام علیہم الرّضوان کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ اِتنے میں حضرت اُمِّ اَیْمَن رضی
اللہُ تعالٰی عنہا گھبرائی
ہوئی حاضِر ہوئیں اور عرض کی: یارسولَ اللہ صلّی
اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم! آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک حسَنَین کریْمَین رضی اللہُ تعالٰی عنہُما لاپتا ہوگئے ہیں۔ یہ غمناک خبر سنتے ہی ہمارے
پیارے نبی صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّمنے بےقراری
کے عالَم میں صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوانسے اِرشاد فرمایا: ”اُٹھو! میرے بیٹوں کو تلاش کرو!“ چنانچہ جس صحابی
کا جس طرف رُخ تھا اُسی طرف تلاش میں نکل گئے۔ منہ سے آگ
نکالنے والاخوفناک اَژْدَہَا مَدَنی آقا صلّی
اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم بھی ایک طَرَف تشریف لے گئے، چلتے چلتے ایک پہاڑ
آگیا، جب اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک اَژْدَہَا (Dragon) اپنی دُم پر کھڑا ہے اور اُس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں جبکہ قریب
ہی امامِ حَسَن اور امامِ حُسَین رضی
اللہُ تعالٰی عنہُما خوف کے مارے ایک دوسرے سے لپٹے کھڑے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی ہمارے پیارے نبی صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم تیزی سے اَژْدَہے کی طرف بڑھے، اَژْدَہے
نے جیسے ہی اللہ کے رسول صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم کو دیکھا تو ڈر کے مارے ایک پتّھر
کے پیچھے چھپ گیا۔ ہمارے پیارے نبی صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم امامِ حَسَن اور امامِ حُسَین رضی اللہُ تعالٰی عنہُما کے پاس آئے، دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور
اُن کے چاند سے چہروں پر دَستِ شفقت پھیرتے ہوئے اِرْشاد فرمایا: ’’میرےماں باپ تم پر قُربان! تم دونوں اللہ پاک کے ہاں بہت عزّت و عظمت والے ہو‘‘۔ اِس کے بعد آپ صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم نے امامِ حَسَن اور امامِ حُسَین رضی
اللہُ تعالٰی عنہُما کو اپنے
ایک ایک کندھے پر سوار کرلیا۔ ہمارے پیارے نبی صلّی
اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم کے عظیم کندھوں پر جنّتی نوجوانوں کےسرداروں کی
سُواری کا یہ دِلکش منظر دیکھ کر قریب موجود صحابی حضرتِ سیّدنا سلمان
فارِسی رضی اللہُ تعالٰی عنہ کہنے لگے: ’’اللہ کریم آپ دونوں کو بَرَکتیں
عطا فرمائے، آپ حَضَرات کی سُواری کتنی اعلیٰ ہے۔‘‘ یہ سن
کر پیارے آقاصلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم نے اِرشاد فرمایا: ’’یہ دونوں سُوار بھی تو
بہت عمدہ ہیں اور اِن کے والِد (یعنی حضرت علی شیرخداکرّم
اللہُ تعالٰی وجہہُ الکریم) کا
مقام تو ان دونوں سے بھی بڑا ہے۔‘‘ ([1])
حکایت سے حاصل ہونے والے مَدَنی پھول
پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنِّیو! ٭
ہمارے پیارے نبی صلّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلّم امامِ حَسَن اور
امامِ حُسَین رضی اللہُ تعالٰی عنہُما سے بہت محبّت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اے اللہپاک! میں اِن سے محبّت کرتا ہوں تو بھی اِنہیں اپنا پیارا
بنالے‘‘([2]) نیز فرماتے تھے: ’’حَسَن و حُسَین دنیا میں میرے 2 پھول
ہیں‘‘([3]) ٭ ہمیں چاہئے کہ حسَنَینِ
کریْمَین رضی اللہُ تعالٰی عنہُما بلکہ سبھی اَہْلِ بیتِ
اَطْہار اور تمام صحابۂ کِرام علیہم الرّضوان سے دِل و جان سے پیار کریں اور اِن حَضَرات کے
صدقے اپنے لئے ’’روشن مستقبل‘‘ کی دُعا کیا کریں۔
کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کَرَم کی
زَہرا ہے کلی جس میں حُسَین اور حَسَن پھول
(حدائقِ بخشش،ص79)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمہ دار شعبہ فیضان مدینہ امیر اہل سنت ،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی
[1] ماخوذ از معجم کبیر،ج3،ص65،
حدیث: 2677
[2] جامع
معمر بن راشد ویلیہ مصنف عبد الرزاق،ج10،ص164، حدیث:(4713 )20312
[3] ترمذی،ج 5،ص427،
حدیث:3795
Comments