Book Name:Ayyam e Hajj Aur Tabligh e Mustafa
کی طرف بھاگتے ہوئے آگ میں گرنے لگے، وہ شخص پتنگوں کو آگ میں گِرنے سے روکتا ہے مگر وہ نہیں رُکتے، آگ میں گرتے ہی جاتے ہیں۔ پس میں وہ ہوں جو لوگوں کو پکڑ پکڑ کر آگ سے دُور کھینچتا ہوں اور لوگ ہیں کہ آگ میں گِرتے ہی چلے جاتے ہیں۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! یہ دِلِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری پیاری تمنّا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ لوگ جہنّم کے رستے سے ہٹ جائیں، جنّت کے رستے پر چل پڑیں۔ یہی وہ شوق اور چاہت ہے، جس کے سبب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے طائِف میں پتھر بھی کھائے، جسمِ پاک خُون سے رنگین بھی ہوا، 10 سال تک مسلسل آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم اَہْلِ مکّہ کو نیکی کی دعوت دیتے رہے، ہر سال حَجّ کے موسَم میں نیکی کی دعوت بھی دیتے، ایک ایک قبیلے کے پاس الگ الگ جا کر بھی اِسلام کی دعوت دیتے، اَبُولَہب اور اَبُوجَہل بدبخت پتھر بھی برساتے ہیں، مبارَک قَدَم خون سے رنگین ہو جاتے ہیں، اِس کے باوُجُود بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نیکی کی دعوت کا کام روکتے نہیں ہیں، سب تکلیفیں برداشت کر کے بھی دِین کا کام جاری رکھتے ہیں۔ آخر کیوں...؟ اِس لیے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی تمنّا ہے کہ لوگ جنّتی ہو جائیں۔
اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کا ایک وَصْف ارشاد فرمایا:
عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ (پارہ:11، سورۂ توبہ:128)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے۔
اس آیت کے تحت تفسیر نعیمی میں ہے: یعنی اُن مَحْبُوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم پر تمہارے وہ گُنَاہ بھاری ہیں جو تم کو مشقت یعنی دوزخ میں پہنچائیں گے۔ تم گُنَاہ کرتے ہو تو