Book Name:Ayyam e Hajj Aur Tabligh e Mustafa

ہم غمگین ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں ان باتوں کا دُکھ ہوتا ہے؟

کاش! دِلِ مصطفےٰ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کے صدقے ہمیں یہ غم نصیب ہو جائے، کاش! خُود کو بھی اور لوگوں کو بھی جہنّم سے بچانے اور جنّت کی راہ چلانے کی دُھن سُوار ہو جائے۔ یقین مانیئے! یہ کڑھن، لگن اور دِل کا غم ہی ہے جو ہمارے مُعاشرے کو سُدھار سکتا ہے، ہمیں ایک باعَمَل مُبَلِّغ بنا سکتا ہے۔ اِس لیے ہمیں اپنے دِل میں یہ غم لازمی پیدا کرنا چاہئے۔

پیشاب میں خُون آنے لگتا

اپنے زمانے کے بہت بڑے عالِم، بہت بڑے مُحَدِّث حضرت سفیان ثَورِی  رحمۃُ اللہِ علیہ  ایک مرتبہ پَنْسَارِیوں (یعنی دَیْسی دوائیں بیچنے والوں) کو نیکی کی دعوت دینے گئے، واپس آ کر فرمایا: جانتے ہو میں اُن کوسمجھانے کیوں گیا تھا...؟ اِس لیے کہ جب میں کوئی بُرائی دیکھ لوں جس سے روکنا مجھ پر واجب ہو، پِھر اگر میں نیکی کی دعوت نہ دُوں، بُرائی سے منع نہ کروں تو (غم کی شِدَّت کے سبب) میرے پیشاب میں خُون آنے لگتا ہے۔ ([1])

اللہُ اکبر! کاش! ہمیں بھی ایسا غم نصیب ہو جائے، کاش! ایسا ہو کہ ہم بس نیک نمازی بنانے کی مشین ہی بَن جائیں، جہاں بیٹھیں، جہاں جائیں، جس سے بھی باتیں کریں، کاش! نیکی کی دعوت دیتے ہی رہا کریں۔

گنہگاروں کے لیے مہربان ہو جائیے!

پیارے اسلامی بھائیو! یہ جو جذبۂ رحمت ہے، یہ جو کُڑھن ہے کہ کوئی بھی گُنَاہ کر کے جہنّم کا حقدار نہ بنے، کسی نہ کسی طرح اسے جہنّم سے بچانے کی صُورت نکل ہی آئے، ایک ماہِر


 

 



[1]...حلیۃ الاولیا، جلد:7، صفحہ:15، رقم:9359۔