پوسٹ بنانے اور چلانے والے متوجہ ہوں

پوسٹ بنانے اورچلانے والےمتوجہ ہوں!

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

ڈاکٹر اور انجینئر کی تعلیم کا عرصہ برابر ہے لیکن دونوں  کی  فیلڈ اور ان کی لائن الگ الگ ہے ، اگر ڈاکٹر کے مُعاملات میں انجینئر مداخلت کرےگا تو شاید مریض ہی کو مار دے گا کیونکہ اس کو علاج کرنا نہیں آتا۔ یوں ہی اگر انجینئر کے معاملات میں ڈاکٹر دخل اندازی کرے گا تو مشین کو ناکارہ بنا کر رکھ دے گا۔ عَرَبی کا مُحاورہ ہے کہ لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ یعنی ہر فن کے لئے ماہرین ہوتے ہیں ، اس لئے جس  کی جو  فیلڈ ہے وہ اُسی کا کام کرے۔ اسی طرح عالمِ دین کی فیلڈ میں غیرِ عالم داخل ہوگا تو زیادہ امکان ہے کہ وہ دُنیا و آخرت کے نقصان والی باتیں کردے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا والے کوئی پوسٹ تیار کرنے یا پھر کسی پوسٹ کو وائرل کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ جومیں نےلکھاہےوہ درست ہے یا نہیں؟ یا جو میں آگے بڑھا رہا ہوں ، یہ واقعی آگے بڑھانے کاہے بھی یا نہیں؟ اس کے لئے کسی اچھے عالمِ دِین سے مشورہ ضرور کیجئے۔ خصوصاً دِینی پوسٹ کے حوالے سے اور اگر کسی کے پاس کوئی پوسٹ آجائے اور اسے یقین ہے کہ یہ پوسٹ گناہ بھری ہے تو جس نے بھیجی ہے اُس کو سمجھا دیا جائے کہ یہ پوسٹ غَلَط ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گناہوں بھری پوسٹ وائرل کرنا جہنم میں پہنچا دے۔ کئى بار میرے پاس بھی سوشل میڈیا سے شرعی مسائل اور دیگر کئی طرح کی تحریریں آتی ہىں ، بعض اوقات ان مىں مجھے کہىں اندیشہ ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں کوشش کرتا ہوں کہ اس مسئلے یا اس تحریر کو عام نہ کروں کہ کہىں اىسا نہ ہو کہ مىں بھی غلط مسئلہ عام کرکے گناہ کرنے والوں مىں شامل ہو جاؤں! چاہے پوسٹ بنانے والا کتنا ہى اچھا رائٹر ہو اور اس نے جان بوجھ کر اس مىں کوئى غلطى نہ کى ہو ، پھر ىہ بھى ضرورى نہىں کہ جس کو مىں نے غلط سمجھا وہ غلط ہى ہو! بہرحال جب اطمینان نہىں ہوتا تو میں اس کوآگے نہیں بڑھاتا ىا پھر معلومات کر لىتا ہوں کہ آیا ىہ بات درست ہے ىا نہىں؟ اگر ہم سب کى اىسی سوچ بن جائے تو ہم بہت سارى غلط باتىں اِدھر اُدھر کرنے سے بچ جائىں گے کیونکہ سوشل میڈیا پر بہت سی گھڑی ہوئی جھوٹی باتیں بلکہ مَعاذَاللہ مَن گھڑت حدیثیں بھی وائرل ہورہی ہوتی ہیں ، کبھی سنى سنائى بات یا کسى بزرگ کے قول کو حدىث ِرسول بنا دىتے ہیں ، کبھی کسی گھڑی ہوئی بات کے بارے میں کہتےہیں کہ ” اللہ پاک ىوں فرماتا ہے۔ “ یوں ہی بعض لوگ مذہبی پوسٹ بنا کر اور اسے وائرل کرکے خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں اس پر اتنے لائیکس مل گئے ، حالانکہ عُلَمائے کِرام کی جوتیوں کے صَدقے میں میرا تجربہ ہے کہ کسی پوسٹ میں باتیں تو اچھی لکھی ہوتی ہیں مگر بسااوقات ایک لفظ یا ایک جملہ ایسا آجاتا ہے جس کی وجہ سے شرعی طورپروہ پوسٹ وائرل نہیں کی جاسکتی۔ ظاہر ہے کہ یہ غلطی بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ پوسٹ عُلَمائے کِرام کو چیک نہیں کروائی جاتی۔ اِسی طرح بعض لوگ اَحادیثِ مُبارکہ کا ایسا ترجَمہ لکھ ڈالتے ہیں کہ جو ہمارے بزرگوں میں سے کسی نے بھی نہیں کیا ہوتا۔ عربی میں ایک لفظ کے کئی معنیٰ ہوتے ہیں لہٰذا ضَروری نہیں ہے کہ جس کو عربی آتی ہو وہ اَحادیثِ مُبارکہ کا دُرُست ترجمہ بھی کرلے ، یاد رکھئے! اَحادیثِ مُبارکہ کے ترجمے کے لئے ضروری ہے کہ عَرَبی آنے کے ساتھ ساتھ اَحادیثِ مبارکہ کی شروحات پر بھی نظر ہو۔ اسی طرح قراٰنِ کریم کا ترجمہ کرنے کے لئے بھی عربی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی عُلوم کا جاننا اور قراٰنِ کریم کی تفاسیر پر بھی نظر ہونا ضَروری ہوتا ہے ، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لفظ کا معنیٰ مفسرین کرام رحمۃُ اللہ علیہم نے کچھ اور بیان کیا ہوتا ہے جبکہ ہم کچھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ترجمہ کرنے میں غلطی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مُستند علمائے اہلِ سنّت کا ترجمہ ہی لکھا اور پڑھا جائے۔

 ( نوٹ : یہ مضمون 29جون2019ء کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک درست کروا کے پیش کیا گیا ہے۔ )


Share