ایک واقعہ ایک معجزہ
چھتری جیسا بادَل
*مولانا محمد ارشد اسلم عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022
شام کا وقت تھا ، صُہَیْب باہر سے آیا ، جلدی جلدی ایک ایک کرکے سب کمروں میں گیااورپھر واپس باہر جانے لگا۔اُمِّ حبیبہ نے آواز دی اورکہا : صہیب ! اتنی جلدی میں کہاں جارہے ہو ؟ اور کمروں میں کسے دیکھ رہے تھے ؟ صہیب نے رُک کر کہا : آپی ! داداجان کو دیکھ رہا تھا ، مجھے کچھ پوچھنا تھا ، یہ کہہ کر صہیب دوبارہ گیٹ کی طرف جانے لگا۔اُمِّ حبیبہ نے صہیب کو روکااور کہا : مجھے بتاؤ کیا پوچھنا تھا ؟ شاید میں تمہاری مدد کردوں ؟
صہیب نے کہا : آپی ! ہم نے داداجان سے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سارے معجزے سنے ہیں ، ایک بار داداجان نے چاند دو ٹکڑےکرنے والا معجزہ بھی سنایا تھا۔اُمِّ حبیبہ نے کہا : جی ! سنایا تھا ، اس کے بعد ایک اور معجزہ بھی سنایا تھا ، اُمِّ حبیبہ نے جلدی سے کہا : جی ! جھولے والا نا ، جو آپ کے بچپن کا معجزہ تھا ، جب آپ جھولے میں ہوتے تھے اورچاند سے باتیں کرتے تھے۔اورانگلی سے چاند کو جس طرف اشارہ کرتے چاند اس طرف جھک جاتا۔(خصائص الکبریٰ ، 1 / 91) صہیب نے خوش ہوکر کہا : جی آپی ! جی !
اُمِّ حبیبہ نے کہا : اب بتاؤ دادا جان سے کیا پوچھنا تھا ؟ صہیب نے کہا : میں ابھی باہر سے آیا تو کونے والی دکان پر مدنی چینل چل رہا تھا جس میں دعوتِ اسلامی کے ایک مبلغ بتارہے تھے کہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر بادل سایہ کیا کرتے تھے ، میں نے دادا جان سے اس کے بارے میں تفصیل پوچھنی ہے ؟ اُمِّ حبیبہ نے کہا : اب یہ تو دادا جان ہی بتائیں گے۔
خُبَیْب سیڑھیوں پر کھڑا اُمِّ حبیبہ اور صہیب کی باتیں سن رہا تھا ، اس نے ان دونوں کو دادا جان کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا تو ہنستے ہوئے کہا : دادا جان تو چھت پر ہیں ، آؤ ! ہم سب چھت پر چلتے ہیں۔
دادا جان بچّوں کی آوازیں سُن کر سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگے ، جیسے ہی ایک ساتھ تینوں کو دیکھا تو مسکرائے اور کہا : لگتا ہے ضرور کوئی اہم معاملہ ہے ! اُمِّ حبیبہ نے کہا : صہیب بھائی کا مطالبہ ہے کہ ہمیں بتائیں کہ کیا بادل ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سایہ کرتے رہتے تھے ؟
دادا جان نے کہا : یہ بھی ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک خصوصیت ہے ، چلو میں آپ کو ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بچپن کا ایک واقعہ سناتاہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 12 سال کے تھے ، آپ کے امّی ابّو تو بہت پہلے انتقال فرماگئے تھے ، آپ اپنے چچا کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ تجارت کرتے تھے مطلب یہ کہ چیزیں خریدتے اور بیچتے تھے۔ وہ تجارت کے لئے دوسرے شہر بھی جاتے تھے۔ایک بار ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ان کے ساتھ دوسرے شہر گئے۔
اس وقت تاجر اکیلے دوسرے شہر نہیں جاتے تھے ، بلکہ بہت سارے تاجر گروپ بناکر ایک ساتھ سفر کرتے تھے۔ دادا جان تھوڑی دیر کے لئے رُکے اور پھر بولے : بچّو ! اسلامی کتابوں میں لفظ ” قافلہ “ لکھا ہوتا ہے اس کا مطلب کچھ لوگوں کا گروپ بناکر سفر کرنا ہی ہوتا ہے دادا جان نے کہا : اب آگے سنو !
سب تاجر چلتے چلتے دوسرے شہر آگئے ، دن کا ٹائم تھا ، ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی ، سب تاجروں پر دھوپ آرہی تھی لیکن ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دھوپ نہیں آرہی تھی۔اُمِّ حبیبہ نے حیران ہوکر کہا : جب سب پر دھوپ آرہی تھی تو ہمارے پیارے نبی پر کیوں نہیں آرہی تھی ؟
داداجان نے مسکراتے ہوئے کہا : ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر یہ اللہ پاک کا خاص کرم تھا اور دنیا والوں کو آپ کی شان دکھانی تھی۔ اللہ پاک نے آپ کے لئے ایک بادل بھیجا تھا ، جو چھتری کی طرح صرف آپ پر سایہ کرتا تھا۔ آپ جہاں جاتے بادل بھی ساتھ ساتھ چلتا اور آپ پر دھوپ نہیں آنے دیتا تھا۔
(مراٰۃ المناجیح ، 8 / 222 ، خصائص الکبری للسیوطی ، 1 / 100 ، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح ، ص109)
تھوڑی دیر بعد قافلے والے ایک درخت کے پاس آکر رک گئے ، جہاں جہاں تک درخت کا سایہ تھا سب چھاؤں میں بیٹھ گئے۔ ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے جگہ نہیں بچی اور آپ درخت کے سائے میں نہیں بیٹھے ، تو درخت خودبخود آپ کی طرف جھک گیا اور درخت کا سایہ آپ پر آنے لگ گیا اور جو لوگ پہلے سائے میں تھے ان پر دھوپ آنے لگ گئی۔ (سبلُ الہدیٰ والرشاد ، 2 / 140 ، مراٰۃ المناجیح ، 8 / 222)
داداجان نے بچوں کو بتایا : اس شہر میں ایک آدمی رہتا تھا ، وہ پہلے والے نبیوں پر اُترنے والی آسمانی کتابیں پڑھتا تھا ، چونکہ ان کتابوں میں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نشانیاں لکھی ہوئی تھیں اس لئے وہ ساری نشانیاں جانتا تھا ، وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ ایک بادل ہے جو ہمیشہ بچے پر سایہ کررہا ہے ، درخت بھی چھاؤں دینے کے لئے خودبخود آگے آگیا۔(مراۃُ المناجیح ، 8 / 222)
وہ آدمی آپ کے چچا سے ملا۔ اس نے پوچھا : یہ بچہ آپ کا کون ہے ؟ چچا نے کہا : یہ میرا بیٹا ہے ، اس آدمی نے کہا : یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ان کے ابو کا انتقال ہوچکا ہے۔داداجان نے بتایا کہ عام طور پر بھتیجے کو بھی بیٹا بول دیا جاتا ہے۔
پھر آپ کے چاچا نے کہا : یہ میرابھتیجاہے۔آدمی نے کہا : اب تم نے سچ کہا ہے۔
(سبل الہدی والرشاد ، 2 / 141)
داداجان نے کہا : وہ آدمی ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نشانیوں سے جان گیا تھا کہ یہ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ آدمی نے بتایا : میں نے خود دیکھا ہے کہ بادل اوردرخت ان پر سایہ کرتے ہیں ، پتھر اوردرخت انہیں سجدہ کرتے ہیں۔ اوریہ چیزیں صرف نبی کو ہی سجدہ کرتی ہیں۔
(ترمذی ، 5 / 356 ، حدیث : 3640 ، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح ، ص111)
معجزہ سننے کے بعد بچوں نے سُبْحٰنَ اللہ کہا ، صہیب تو بہت ہی خوش ہوا اور اس نے کہا : دیکھا ! ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سچ میں بڑے کمال والے ہیں۔
اتنے میں اذانِ مغرب ہونے لگی اور بچے داداجان کے ساتھ مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ملفوظات امیر اہل سنت اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments