*مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2022ء
( 01 ) ڈاکو کی نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ ڈکیتی کے دوران اگر کوئی ڈاکو قتل کر دیا جائے ، تو اس کی نماز ِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ شرعی راہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کا درس دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق اور احترام کو بیان فرمایا ہے اور جو مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرے اور ان پر ظلم کرے ، تو اس کے متعلق وعیدوں اور سزاؤں کو بھی بیان کیا ہے۔اسی طرح دینِ اسلام میں معاشرتی اور ملکی نظام کے حقوق کے متعلق بھی راہنمائی کی گئی اور معاشرے کو پُرامن بنانے کے لئے کئی احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔ معاشرتی بگاڑ اور مسلمانوں کی جان اور مال کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں سے ایک چیز ڈاکہ زنی ہے کہ ڈاکو لوٹ مار کر کے مال اور جان کو نقصان پہنچاتے ہیں جو کہ اسلامی ریاست میں رہنے والے افراد کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور معاشرے اور ملکی نظام میں فساد پھیلانے کا سبب ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں زمین میں فساد پھیلانے والوں کی مذمت فرمائی ہے ، لہٰذا ایسے لوگ ہمدردی کے لائق نہیں ہوتے اور شریعتِ مطہرہ نے ایسے افراد کو نشان ِ عبرت بنانے کے لئے اوراس فعل کے سدِ باب کے لئے مختلف سزائیں تجویز کی ہیں ۔
اس مختصراً گفتگو کے بعد یہ بات بھی بغور ذہن نشین رکھی جائے کہ فوت شدہ ڈاکو دو طرح کے ہوتے ہیں (1)وہ ڈاکو جو دورانِ ڈکیتی لڑائی میں مارے جائیں ( 2 ) وہ ڈاکو جو ڈاکہ زنی کرتے ہوئے پکڑے جائیں اور بعد میں سزا کی وجہ سے مَر جائیں یا دورانِ ڈکیتی ان کا انتقال نہ ہوا ہو ، بلکہ اپنی طبعی موت مر جائیں۔ ان دونوں صورتوں کے ڈاکوؤں کا حکم مختلف ہے۔
پہلی صورت کے ڈاکوؤں کے متعلق ہی فقہائے کرام نے کتبِ فقہ میں یہ مسئلہ ارشاد فرمایا ہے جو کہ سوال میں مذکور ہے کہ : ” ڈاکو جو ڈاکہ زنی کے دوران قتل کر دیا جائے ، تو ایسے شخص کی نمازِ جنازہ اس لئے ادا نہیں کی جائے گی “ کیونکہ نمازِ جنازہ میں رحمت اور دعا کو طلب کرنا ہے اور شریعتِ مطہرہ نے بیان فرمایا ہے کہ ڈاکو کے لئے دنیا میں رسوائی اور ذلت ہے ، لہٰذا یہ رحمت کا مستحق نہیں ہوگا ، نیز اس وجہ سے بھی ڈاکو کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی تاکہ لوگوں کوتنبیہ ہواوروہ عبرت حاصل کریں اور ڈاکہ زنی کے فعل پر اقدام نہ کریں۔
ڈاکو زمین میں فساد کرتے ہیں ، جیسا کہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے : ” ( البغاۃ و قطاع الطریق لا یصلی علیھم ) لانھم یسعون فی الارض فساداقال تعالی فی حقھم ” ذلِكَ لَهُمْ خِزْىٌ فِى الدُّنْيَا “ و الصلاۃ شفاعۃ فلا یستحقونھا “ ترجمہ : باغی اور ڈاکو پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ، کیونکہ یہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ پاک نے ان کے حق میں فرمایا ہے : ” یہ دنیا میں اُن کی رُسوائی ہے “ اور نمازِ جنازہ شفاعت ہے اوریہ لوگ اس شفاعت کے مستحق نہیں ہیں۔
( الاختیار لتعلیل المختار ، 1 / 98-المحیط البرھانی ، 2 / 184-تنویر الابصار متن درِ مختار مع رد المحتار ، 3 / 125 ، 126-البحر الرائق ، 2 / 188 )
البتہ وہ ڈاکو جو دورانِ ڈکیتی ، انتقال نہ کرے ، بلکہ گھر میں انتقال کر گیا یا وہ ڈاکو جس کو پکڑا گیا اور سزا کے دوران انتقال کرگیا یا جیل میں ہی اپنی طبعی موت مر گیا ، الغرض ہر وہ ڈاکو جو دورانِ ڈکیتی نہ فو ت ہوا ہو ، تو ایسے ہر ڈاکو کے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے غسل بھی دیا جائے گا۔
( رد المحتار علی الدر المختار ، 3 / 126-ملتقطاً از اللباب مع القدوری ، 1 / 135-ملتقطاً از المحیط البرھانی ، 2 / 185-بہار شریعت ، 1 / 827 )
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 02 ) دورانِ نماز ، نماز کا وقت ختم ہوجائے تو ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص نے نمازِ ظہر یہ سمجھ کر شروع کی کہ ابھی وقت باقی ہے ، لیکن نماز پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ وقت تو ختم ہوچکا تھا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں جو نمازِ ظہر ادا کی گئی ، کیا وہ نماز ادا ہوگئی ؟ یا پھر اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا ؟ ؟ راہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر تو اس شخص نے نمازِ ظہر وقت میں شروع کی تھی مگر سلام پھیرنے سے پہلے ہی نماز کا وقت ختم ہوگیا ، تو اس صورت میں وہ نمازِ ظہر ادا ہوگئی ، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق فجر ، جمعہ اور عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں میں اگر نمازی وقت کے اندر تکبیرِ تحریمہ کہہ لے ، تو اس کی وہ نماز ادا ہوجائے گی۔
البتہ اگر اس شخص نے نمازہی وقت ختم ہونے کے بعد شروع کی تھی اگرچہ اس کےاپنے خیال میں نماز کا وقت ابھی باقی تھا ، تو اس صورت میں بھی اس کی وہ نمازِ ظہر درست ہی ادا ہوگی کہ قضا نماز ادا کی نیت سے اور ادا نماز قضا کی نیت سے بھی ادا ہوجاتی ہے ، جیسا کہ فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے۔
یہاں تک تو پوچھے گئے سوال کا جواب تھا البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر نماز قضا ہونے والی صورت پائی گئی اور اس کوتاہی میں خطا کے بجائے غفلت کار فرما تھی تو نماز قضا کرنے کے گناہ سے توبہ کرنا بھی اس شخص پر ضروری ہے۔ ( مجمع الانھر ، 1 / 216- بہارِ شریعت ، 1 / 495 ، 701 )
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی
Comments