حضرت اَبان بن سعید رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2022ء

حضرت سیّدُنا اَبان بن سعید بن عاص اُمَوِی قُرَشِی رضی اللہ عنہ جلیلُ القدر صحابی ، کاتبِ وحی اور اُمَوِی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔[1]آپ کی زندگی کو قبولِ اسلام سے پہلے اور بعد دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اسلام سے نفرت حضرت ابان بن سعید کے 7 بھائی تھے جن میں سے 5 نے اسلام قبول کیا۔[2] 2 بھائی حضرت خالد بن سعید اورحضرت عَمرو بن سعید رضی اللہ عنہما بہت پہلے اسلام لاکر  ( کفار کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے )  حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے ، 3 ہجری غزوۂ بدر میں حضرت ابان بن سعید کفّار کی جانب سے لڑے ، اسی غزوہ میں ایک کافر بھائی عاص کو شیِرِ خدا حضرت مولاعلی نے اور دوسرے کافر بھائی عبیدہ کو حضرت زبیر بن عَوَّام نے قتل کیا ، حضرت ابان کی قسمت میں دولتِ ایمان لکھی تھی اس لئے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ غزوۂ بدر کے بعد آپ کے بھائی حضرت خالد اور عَمرو  رضی اللہ عنہما نے آپ کو ایک خط لکھا اور اسلام کی دعوت دی ، لیکن آپ یہ خط پڑھ کر بہت غصہ ہوئے اور کہنے لگے : میں اپنا آبائی دین کبھی نہیں چھوڑوں گا۔[3]اسلام لانے کا سبب حضرت ابان رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں سخت نازیبا کلمات کہا کرتے اور ناراض ہوکر اپنے دانت پیسا کرتے تھے لیکن ایک واقعے نے آپ کی زندگی کا رُخ پھیر دیا ، آپ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں تجارت کی غرض سے ملکِ شام گیا اور ایک سال وہاں قیام کیا ، ایک رات دیکھا کہ نصرانیوں نے اپنی عبادت گاہوں اور گرجا گھروں کو خوشبو سے مہکانا شروع کردیا اور عمدہ عمدہ کھانے بنانے اور کپڑے پہننے میں مصروف ہوگئے ، میں نے کسی سے پوچھا : یہ کیا معاملہ ہے ؟  اس نے جواب دیا : یہاں ایک ” بُکا “ نامی راہب  ( ایک پہاڑ پر عبادت میں مصروف )  رہتا ہے ، 40 سال سے وہ زمین پر نہیں اُترا اور نہ کسی نے اس کا چہرہ دیکھا ہے ، آج کی رات وہ نیچے اتر کر آئےگا اور 40 راتیں ہماری عبادت گاہوں اور گرجا گھروں میں ٹھہرےگا۔ اگلا دن آیا تو وہ راہب پہاڑ سے نیچے اترا ، سب لوگ اپنے گھروں سے نکل کر اس کے گِرد جمع ہوگئے ، میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا مرد ہے ، کچھ دنوں بعد میں اس راہب کے پاس گیا اور کہا : میرا تعلق قبیلۂ قریش سے ہے ، ہمارے یہاں ایک مرد کا کہنا ہے کہ انہیں اللہ نے بھیجا ہے جس طرح اللہ نے حضرت موسیٰ و عیسیٰ کو بھیجا ہے ، اس نے پوچھا : تمہارا شہر کہاں ہے ؟  میں نے کہا : تِہَامَہ کاشہر مکہ ہے ، پوچھا : شاید تم عرب کے تاجر ہو ؟  کہا : ہاں ! پھر پوچھا : تمہارے اس صاحب کا کیا نام ہے ؟  کہا : محمد  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) ، پوچھا : کیا پہلے میں تمہیں ان کے اوصاف نہ بتاؤں پھر تم مجھے ان کے بارے میں بتانا ؟  میں نے کہا : ٹھیک ہے ، اس نے پوچھا :  ( اعلانِ نبوت کئے ہوئے ) ان کو کتنا عرصہ ہوچکا ہے ؟  میں نے کہا : 20 سال یا اس سے کچھ کم۔ پوچھا :  ( اعلانِ نبوت کے وقت )  وہ 40 سال کے تھے ؟  کہا : ایسا ہی ہے ! پیارے آقا کے اوصاف اس نے کہا : ان کے بال گھنگھر یالے نہیں ہیں ، چہرہ حسین ہے ، قد معتدِل ہے ، ہتھیلیاں گوشت سے پُر ہیں ، دونوں آنکھوں میں سُرخی  ( یعنی سُرخ ڈورے )  ہیں ، جس شہر میں تھے اس میں جنگ و مقابلہ نہیں کیا ، ہجرت کے بعد جنگ کرکے کامیابی و کامرانی پائی ، ان کے ساتھیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور دشمن کم ہورہے ہیں ، ساری باتیں سن کر میں نے کہا : اللہ کی قسم ! تم نے ان کی حالت اور معاملات بیان کرنے میں ایک بھی غلطی نہیں کی ، اب تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون ہیں ؟  اس نے پوچھا : تمہارا کیا نام ہے ؟  میں نے کہا : ابان ، پوچھا : تم ان کی تصدیق کرتے ہو یا ان کو جھٹلاتے ہو ؟  کہا : جھٹلاتا ہوں ، یہ سن کر اس نے میری کمر پر نرمی سے تھپڑ مارا اور پوچھا : کیا وہ اپنے ہاتھ سے خط لکھتے ہیں ؟  کہا : نہیں ، راہب نے کہا : اللہ کی قسم ! وہ اس اُمّت کے نبی علیہ السّلام ہیں ، وہ ضرور تم سب پر غالب آجائیں گے ، پھر عرب پر فتح یاب ہوجائیں گے پھر روئے زمین پر ان  ( کے دین ) کی بالادَستی ہوجائے گی ، اس کے بعد راہب باہر نکلا اوریہ کہتا ہوا اپنی عبادت گاہ میں چلاگیا : ا س نیک مرد کو میرا سلام پہنچادینا۔ اس واقعہ نے آپ کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کردی ، مکہ لوٹ کر آپ نے پھر کبھی نبیِّ کریم کے بارے میں سخت کلامی نہ کی۔  [4]  صلحِ حُدیبیہ سے پہلے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قاصد بن کر قریش کے پاس آئے تو قریش نے ان کی بات ماننے سے انکار کیا اور وہاں سے چلے جانے کو کہا ، یہ دیکھ کر آپ نے حضرت عثمان سے کہا : خوش آمدید ! آپ مکہ میں جہاں چاہتے ہیں جائیےآپ امان میں ہیں ، پھر گھوڑے سے اترے اور حضرت عثمان کو گھوڑے پر بٹھایا اور خود حضرت عثمان کے پیچھے بیٹھ گئے اس طرح حضرت عثمان مکے میں داخل ہوگئے۔[5]  قبولِ اسلام کچھ دنوں بعد آپ کے بھائی حضرت خالد اور عَمرو  رضی اللہ عنہما ایک سفینے میں بیٹھ کر حبشہ سے روانہ ہوئے یمن کے راستے میں ساحلِ سمندر کے قریب دونوں بھائیوں نے ایک مرتبہ پھر آپ کو قبولِ اسلام کے لئے خط بھیجا ، مکتوب ملنے کے بعد آپ کفر کی تاریکیوں سے نکل آئے اور مدینے میں اپنے بھائیوں سے جاملے ، پھر تینوں بھائی خیبر کے مقام پر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے۔  [6]  یاد رہے کہ صلحِ حدیبیہ 6 ہجری ماہِ ذیقعد میں ہوئی اور 2 ماہ بعد ماہ ِمحرّم میں فتحِ خیبر مسلمانوں کے حصے میں آئی ، آپ اس دوران ہی اسلام لائے تھے۔[7] اہلِ مکّہ کی حالت حضرت اَبان بن سعید جب حاضر خدمت ہوئے تو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا : اے ابان ! تم نے اہلِ مکہ کو کیسی حالت میں چھوڑا ؟  آپ نے عرض کی : ان لوگوں سے اس حالت میں جدا ہوا کہ ان کی زمین پر بارش برس چکی تھی ، میں نے اِذْخِر  ( نامی گھاس )  کو اس طرح چھوڑ ا کہ اس کی کثرت و بُہتات ہوچکی تھی ، میں مکے کی ثمُام   ( نامی گھاس ) سے یوں الگ ہوا کہ وہ نکل چکی تھی ، یہ سُن کر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ، فرمایا : میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں پھر میرے بعد  ( زیادہ فصیح )  ابان ہے۔[8]غزوات  آپ نے غزوۂ خیبر میں بھی حصہ لیا ،[9]نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غزوۂ طائف سے واپسی پر ایک صحابی حضرت وَرْدَان رضی اللہ عنہ کو آپ کے سپرد کردیا تاکہ آپ ان کے اَخراجات اٹھائیں اور ضروری اشیا انہیں مہیا کریں اور ساتھ ساتھ انہیں قراٰنِ پاک بھی سکھائیں۔[10] سن 9 ہجری حج کے بعد جب لوگ واپس مدینے آئے تو نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کوبحرین پر صدقات کی وصولی کیلئے عامل مقرر کرکے بھیجا۔[11]  مدینے واپسی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِحلت کے بعد آپ خود اپنے عہدے سے دست بردار ہوکر مدینے تشریف لے آئے۔[12] شہادت ایک قول کے مطابق سن 13 ہجری جمادی الاولیٰ میں رونما ہونے والے معرکۂ اَجْنَادَین میں آپ نے شہادت پائی ،  [13]  دورانِ جنگ ایک تیر آپ کو آکر لگا تو آپ نے اسے کھینچ کر نکال لیا پھر اپنا عمامہ زخم پرلپیٹ لیا ، بھائیوں نے آپ کو اٹھایا تو کہا : میرا عمامہ میرے زخم سے مت کھولنا اگر تم نے کھول دیا تو میری جان چلی جائےگی ، زخم دیکھنے کے لئے جب عمامہ کھولا گیا تو آپ کی روح جسدِ خاکی کو چھوڑ کر عالَمِ بالا کی جانب روانہ ہوگئی۔[14]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] اسد الغابۃ ، 1 / 58

[2] الاستیعاب ، 1/159

[3] طبقات الکبیرلابن سعد ، 5/9

[4] تاریخ ابن عساکر ، 6/128ملخصاً

[5] مغازی للواقدی ، ص601ملخصاً-اسد الغابہ ، 1/59

[6] الطبقات الکبیر لابن سعد ، 5/10

[7] اسد الغابہ ، 1/58

[8] غريب الحديث للخطابی ، 1/494-معجم ابن الاعرابی ، ص1116 ، حدیث:2408

[9] اسد الغابہ ، 1/59

[10] الاصابہ ، 6/474

[11] الطبقات الکبیر لابن سعد ، 5/10

[12] الطبقات الکبیرلابن سعد ، 5/11 ملخصاً

[13] الاستیعاب ، 1/160

[14] تاریخ ابن عساکر ، 6/138- الاکتفاء للکلاعی ، 2/204


Share