درسِ نظامی کب اور کس نے شروع کیا؟

تذکرۂ صالحین

درسِ نظامی کب اور کس نے شروع کیا؟

*مولانا حامد سراج عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2022ء

 ” درسِ نظامی “ جنوبی ایشیا کے دینی ، علمی ، تدریسی اور تعلیمی نظام میں مشہور اصطلاح ہے ، درسِ نظامی دینی تعلیم کا ایسا نصاب ہے کہ پچھلے ساڑھے تین سو سالوں میں جس نے بھی دینی علوم حاصل کرکے دستارِ فضیلت باندھی ہے اس نصاب سے وہ ضرور فیض یاب ہوا ہے۔ ” درسِ نظامی “ علومِ عربیہ و اسلامیہ کا جامع اور ہمہ گیر نصاب ہے۔ یہ اس کی جامعیت ہی کی دلیل ہے کہ ساڑھے تین سو سال بیت چکے ہیں مگر اب بھی یہی نصاب یا تو مِن و عَن یا پھر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ جنوبی ایشیا کے ہزاروں مدارس و جامعات میں رائج اور معیارِ فضیلت ہے۔ ان ساڑھے تین سو سالوں میں بڑے بڑے عُلما و فُضلا جو آسمانِ علم و فنّ کے آفتاب و ماہتاب بنے وہ اوّلاً اسی نصاب کے خوشہ چِین ہوئے۔ ” درسِ نظامی “ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ یہ ایک خاص طریقۂ درس ہے، اس کے تحت طالبِ علم کو شروع ہی سے متعدّد ایسی کتابیں پڑھا دی جاتی ہیں جو ہر اہم علم و فن میں ضروری شُد بُد پیدا کر دیتی ہیں۔ ان میں سے کئی کُتب بانیِ درسِ نظامی کے تلامذہ کی تصانیف ہیں جو ان کے سامنے یا ان کے بعد تصنیف ہوئی تھیں۔[1]یہ اس نصاب کی خصوصیت ہے کہ نصاب ختم کرنے کے بعد طالبِ علم کثیر فنون کی کتب سمجھنے کی صلاحیت پاجاتا ہے ، بالخُصوص توجّہ سے درسِ نظامی پڑھ لیا جائے تو عربی زبان کی زلفِ پریشان کو سنوارنے کے لئے ایڑیاں رگڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

درسِ نظامی کی ترتیب یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ استاذُ العُلماء حضرت علّامہ نظامُ الدّین محمد فرنگی محلی رحمۃُ اللہ علیہ کی نسبت سے درسِ نظامی کو ” درسِ نظامی “ کہتے ہیں لیکن درحقیقت اس سلسلۂ درس کی تاریخ ایک پشت اوپر یعنی ملّا نظامُ الدّین کے والدِ گرامی ملا قطبُ الدّین شہید سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت ملا شہید نے اپنے درس کیلئے ایک خاص طریقہ قائم کیا ، وہ یہ کہ ہر فن کی ایک ہی کتاب جو اپنے موضوع پر بہترین ہوتی تھی ، پڑھاتے تھے ، اسی سے ان کے تلامذہ صاحبِ تحقیق ہو جاتے تھے۔ جبکہ ان کے فرزند حضرت ملا نظام الدین نے ہر ہر علم و فن پر ایک ایک کتاب کا مزید اضافہ کر دیا۔ یوں یہ ہر فن کی دو دو کتابیں پڑھاتے اور بعض ذہین طلبہ کو ایک ہی کتاب پڑھاتے تھے۔[2]  آج کے دور میں ملا نظامُ الدّین کے منتخب کردہ فُنون اور کتب کو ہی ” درسِ نظامی “ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ” فرنگی محل “ میں بیٹھ کر حضرت ملا نظام الدین نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو پانچ یا چھ سال میں طلبہ کو فارغُ التحصیل ہونے کا موقع ملنے لگا۔[3]  یوں ایک متوسّط ذہن کا طالبِ علم 16سے 18 سال کی عمر میں فضیلت کی دستار باندھنے لگا۔

بانیِ درسِ نظامی کا تعارف درسِ نظامی کے بانی ملا نظامُ الدّین اپنے وقت کے بےنظیر عالمِ معقولات و منقولات ، ملا قطبُ الدّین شہید سہالوی رحمۃُ اللہ علیہ کے تیسرے فرزند تھے۔[4]  ملا قطب الدین کی علمی لیاقت اور دینی خدمات نے بادشاہِ ہند اورنگ زیب عالمگیر کو بھی متأثّر کر رکھا تھا۔ ملا قطب الدین ایک دفعہ اپنے آبائی قصبہ سہالی میں طلبہ کو علومِ نبوی سے سیراب کر رہے تھے کہ کچھ شرپسندوں نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں بےدردی سے شہید کر دیا اور گھر کو آگ لگادی۔ اس واقعہ کے بعد آپ کے خاندان نے سہالی سے ہجرت کی۔

فرنگی محل میں آمد بادشاہِ وقت نے لکھنؤ کے مضافات میں ایک خالی کوٹھی جو ” حویلی فرنگی “ کہلاتی تھی ملا شہید کے اہل و عیال کے نام کر دی۔[5]  اس حویلی کو ” فرنگی محل “ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں سے داعیانِ اسلام و مبلغینِ سنّت کی فوجیں تیار ہوکر بحر و بر کی وسعتوں میں چھا گئیں۔ ملا نظامُ الدّین اس وقت 14 برس کے تھے جب آپ ہجرت کر کے حویلی فرنگی میں جلوہ فگن ہوئے۔[6]

ظاہری و باطنی تعلیم آپ نے بنیادی دینی تعلیم تو اپنے والدِ گرامی سے حاصل کی ، حویلی پہنچ کر مزید تعلیم کیلئے علمائے وقت کی طرف مراجعت کی اور اس دور کے ممتاز و ماہر علما سے کتبِ درسیہ پڑھیں۔[7]  علومِ نقلیہ و عقلیہ سے فراغت کے بعد باطنی تعلیم کے حصول کیلئے سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم پیشوا اور ولیِ کامل سیّد عبد الرّزّاق بانسوی رحمۃُ اللہ علیہ کے دستِ اقدس پر شرفِ بیعت حاصل کیا۔ منازلِ سلوک طے کیں اوراعزازِ خلافت بھی حاصل کیا۔[8]

مدرسہ فرنگی محل حضرت ملا نظام الدین فرنگی محلی علوم و فنون کی تکمیل کے بعد بقیہ تمام عمر ” فرنگی محل “ میں درس و تدریس ، تصنیف و تالیف اور تبلیغ و اصلاح کا کام کرتے رہے ، یہیں پر انہوں نے اپنا مقرّر کردہ نصاب رائج کیا اور اس کی تدریس فرمائی۔ آپ کے درس نے اس قدر قبولیت حاصل کی کہ ہند کے کونے کونے میں آپ کے شاگرد نظر آنے لگے۔ آپ اور آپ کے تلامذہ در تلامذہ کے ذریعے فرنگی محل کا علمی و درسی فیضان جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک تک جا پہنچا ہے۔ آپ نے ” فرنگی محل “ کے اس خطۂ زمین کو رشکِ ثُرَیّا بنا دیا اور ہند کی اس ایک درس گاہ سے ہزاروں مدرّسین ، عُلما ، محقّقین ، مصنفین ، مبلّغین اور مصلحین پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ میں بڑے علمی کارنامے سرانجام دیئے۔ دورِ حاضر میں بھی پاک و ہند کے ممتاز مدرسین و علما بالواسطہ آپ کے تلامذہ ہونے کو قابلِ اعزاز گردانتے ہیں اور جو شخص آپ سے شاگردی کا تعلق رکھتا ہے فضلائے عہد کے درمیان امتیاز و خصوصیت کا پرچم بلند کرتا ہے۔[9]

درسِ نظامی کے ابتدائی مشمولات حضرت ملا نظامُ الدّین رحمۃُ اللہ علیہ نے تقریباً 11 فُنون کی کتب اپنے نصاب میں شامل کی تھیں۔ قراٰن و حدیث چونکہ تمام دینی ضروریات کی بنیاد ہیں اور ان کیلئے عربی زبان کی تعلیم لازمی ہے۔ فارسی اُس دور کی دفتری اور عدالتی زبان تھی اور فقہِ حنفی کو ملک میں رائج قانون کا درجہ حاصل تھا۔ ان کے علاوہ فلسفہ ، حکمت ، ہندسہ ، منطق اور علمِ کلام سمیت دیگر کئی فنون بھی اس نصاب کا حصّہ تھے۔ یوں یہ اس وقت کی دینی و قومی ضروریات پر مشتمل جامع نصاب تھا۔ 11مضامین کیلئے مقرّرہ 43کُتب پر مشتمل اس نصاب میں معقولات کی کتابوں کی تعداد 20 تھی جن میں سے منطق کی آٹھ ، حکمت کی تین ، علمِ کلام کی چار اور ریاضی کی پانچ کتابیں شامل تھیں۔ عُلومِ لسانیات کی چودہ کتابوں میں سے علمُ الصّرف کی سات ، علمُ النّحو کی پانچ اور بلاغت کی دو کتابیں جبکہ علومِ عالیہ یعنی خالص دینی مضامین کی کل نو کتابوں میں سے فقہ کی دو ، اصولِ فقہ کی چار ، تفسیر کی دو اور حدیث کی ایک کتاب شامل تھی۔[10]

مختلف اَدوار میں مختلف علاقوں اور جامعات میں درسِ نظامی کے فُنون اور کتابوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا رہا ہے کہیں ایک فن کی کتابیں زیادہ شاملِ نصاب رہیں تو کہیں دوسرے فن کی۔ دعوتِ اسلامی کے جامعاتُ المدینہ میں بھی کچھ تبدیلی کے ساتھ ان فنون کی کتب شاملِ نصاب ہیں۔

رحلت شریف علوم و مَعارِف کا یہ آفتاب و ماہتاب 9 جُمادَی الاُولیٰ1161ھ مطابق 8 مئی1748ء میں اپنے رب کی رحمت میں چھپ گیا۔[11]

اللہ پاک درسِ نظامی کی بنیاد رکھنے والے اور اسے آگے بڑھانے والے علمائے اہلِ سنّت کی شان و عظمت بلند فرمائے اور ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ سیرتِ مصطفےٰ المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی



[1] بانیِ درسِ نظامی ، ص259

[2] بانیِ درسِ نظامی ، ص262

[3] بانیِ درسِ نظامی ، ص79

[4] ممتاز علمائے فرنگی محل ، ص51

[5] بانیِ درسِ نظامی ، ص50

[6] بانیِ درسِ نظامی ، ص56

[7] بانیِ درسِ نظامی ، ص 61

[8] تعریفاتِ علومِ درسیہ ، ص 235

[9] تعریفاتِ علوم درسیہ ، ص 237 ، بانیِ درس نظامی ، ص72 ، 73 ماخوذاً

[10] القلم ، جون 2012 ، ص271

[11] بانیِ درسِ نظامی ، ص203


Share