مفتی محمد صاحبداد جمالی رحمۃُ اللہِ علیہ

تذکرۂ صالحین

مفتی محمد صاحبداد جمالی رحمۃُ اللہ علیہ

*قمرالدین عطاری

ما ہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022

ولادت استاذُالعلماء عمدۃُالفقہاء مفتیِ اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 14 اپریل1898ء مطابق 1316ھ کو بمقام لونی ضلع سِبّی بلوچستان میں ہوئی۔ مفتی صاحب کا تعلق جمالی بلوچ قبیلے سے تھا اور آبائی وطن جھوک سید قاسم شاہ تحصیل بھاگ ، ڈویژن قلات اور صوبہ بلوچستان ہے۔  [1]

تعلیم وتربیت حضرت مفتی محمد صاحبداد جمالی رحمۃُ اللہ علیہ نے قراٰنِ پاک سِبّی میں حضرت خواجہ سید خواج محمد شاہ صاحب کاظمی رحمۃُ اللہ علیہ سے پڑھا پھر ایک استاد سے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم اور پھر سندھ کے مختلف مدارس میں درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی۔  1334ھ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے شکار پور کی نامور دینی درسگاہ ” مدرسہ ہاشمیہ قاسمیہ گڑھی یاسین “ حاضر ہوئے جہاں فقیہُ العصر حضرت علّامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہ علیہ سے علم کی دولت پائی اور 11 ذوالقعدۃ الحرام  1336 ھ  کو سندِ فراغت پائی۔  [2]

شادی واولاد آپ نے دو شادیاں کیں ، اللہ پاک نے پہلی زوجہ سے ایک بیٹا عبدُ الغفار اور ایک بیٹی ، جبکہ دوسری زوجہ سے ایک بیٹی اور چار بیٹے عبدُالرشید ، عبدُالعزیز ، عبدُالقادر اور عبدُالکریم عطا فرمائے۔[3]

عہدۂ قضا و صحافت آپ ریاستِ قلات کے قاضیُ القضاۃ  ( چیف جسٹس )  رہے۔[4] اور سلطان کوٹ منتقل ہونے کے بعد مذہبی صحافت کو فروغ دیا ، چنانچہ سندھی میں یکے بعد دیگرے دو ماہنامے ” ماہانہ رسالہ الہمایوں “ اور ” ماہنامہ الاسلام “ جاری کئے۔[5]

درس و تدریس آپ نے مختلف مقامات پر تدریس فرمائی اور بالآخر 1955ء کو جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ  ( ضلع خیرپور میرس ، سندھ )  سے منسلک ہو کر صدرِ مدرس اور شیخُ الجامعہ کی حیثیت سے درس وتدریس ، فتویٰ نویسی اور تصنیف و تحقیق وغیرہ میں مصروف رہے اور زندگی کے آخری دس سال یہیں گزارے۔[6]

تلامذہ  آپ طلبہ پر باپ جیسی شفقت فرماتے ، اگر کوئی بیمار ہوتا تو علاج کا اہتمام فرماتے۔[7] آپ کے طلبہ میں استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صالح مہر ، حضرت علامہ مفتی دُرّ محمد سکندری ، حضرت علامہ مفتی عبدُالواحد عباسی ، سلطانُ الواعظین حضرت مفتی عبدُالرحیم سکندری ، حضرت علامہ مولانا سید غوث محمد شاہ صاحب جیلانی ، اور حضرت علامہ مولانا قربان علی سکندری دامت فُیُوضُہم جیسی ہستیاں شامل ہیں۔

تصنیف وتالیف درس و تدریس کے علاوہ عقائد و اعمال کی اصلاح پر مشتمل بہت سی کتابیں لکھیں جن میں اَلْبلاغُ الْمُبِین ، الحقُّ الصَّرِیح ، اِقَامَۃُ الْبُرْھَان ، اَلتَّوَسُّل بِسَیِّدِ الرُّسُل الٰی خَالِقِ الْکُلّ ، اَلصَّارِمُ الرَّبّانی عَلٰی کرشن قَادیانی ، سَیْفُ الرَّحْمان عَلٰی اَعْدَاءِ الْقُرآن ، السَّیْفُ الْمَسْلول عَلٰی اَعْدَاءِ آلِ الرَّسُول ، اَلْقَوْلُ الْمَقْبُوْل ، اِلْھَامُ الْقَدِیْر فِی مَسْئَلَۃِ التَّقْدِیر ، سَبِیْلُ النَّجَاح فِی مَسَائِلِ الْعِیَال والنِّکاح ، اَلْقَوْلُ الْاَنْوَر فِی بَحْثِ النُّوْرِ وَالْبَشَر ، اسلامی مشاورتی کونسل کے سوال نامے کے جواب ، مطالبۂ حق ، نصرتُ الحق ، تعمیرِ مساجد کا اہم فتویٰ اور عشرۂ کاملہ وغیرہ شامل ہیں۔

فتویٰ نویسی علم و فضل و فتویٰ نویسی میں آپ کو ایسی شہرت تھی کہ برِّصغیر کے علاوہ یورپ ، مَشرقِ وُسطیٰ اور انگلستان تک سے آپ کے پاس استفتا آتے آپ ان کے علمی ، تفصیلی اور مستند جوابات لکھ کر بھیجتے۔

جب کراچی میں لوگوں کی رہنمائی کیلئے مرکزی دارالافتاء قائم ہواتو آپ اتفاقِ رائے سے اس کے رئیسُ الافتاء منتخب ہوئے۔[8] فتویٰ نویسی میں آپ کی مہارت کا تذکرہ محققِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مفتی عبدالحکیم شرف قادری رحمۃُ اللہ علیہ نے بھی کیا ہے۔  [9]

مفتیِ اعظم پاکستان کالقب اکابرینِ اہلِ سنّت مثلاً استاذ العلماء مفتی تقدس علی خان بریلوی  ( سابقہ شیخ الحدیث و شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ ) اور حضرت علامہ مفتی محمد اعجاز ولی رضوی  ( شیخ الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور ) وغیرہ نے آپ کو مفتیِ اعظم پاکستان کے لقب سے پکارا جو آپ کی فقہی بصیرت کے لئے خراجِ تحسین ہے۔[10]

دیدارِمصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آپ کو خواب میں خَاتمُ النَّبِیّٖن حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور بہت سی عظیم ہستیوں کی زیارت ہوئی ، جن میں صحابیِ رسول حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ ، حضرت شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اور اورنگزیب عالمگیر رحمۃُ اللہ علیہ وغیرہ جیسی ہستیاں شامل ہیں۔[11]

تحریکِ پاکستان میں کردار آپ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن بھی رہے ، آپ نے تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ 1946[12]میں 27 تا 30 اپریل کو ” بنارس انڈیا “ میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں دو ہزار علما و مشائخِ اہلِ سنّت نے شرکت کرکے بیک زبان پاکستان کی حمایت کی تھی ، ان میں آپ بھی شامل تھے۔[13]

تحریکِ ختمِ نبوّت  آپ نے عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت اور ردِّ قادیانیت میں بھی بہت محنت کی۔ سندھ میں قادیانیوں کے خلاف سب سے پہلے قلم اُٹھانے والے بھی آپ ہی تھے ، قادیانیوں کی تردید میں لکھی ہوئی آپ کی کتاب ” اَلصَّارِمُ الرَّبّانی عَلٰی کرشن قَادیانی “ کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔

وصال مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد صاحبداد جمالی رحمۃُ اللہ علیہ کا وصالِ پُر مَلال یکم جمادی الاولیٰ 1385ھ مطابق 29 اگست 1965ء کو ہوا ، نمازِ جنازہ عیدگاہ سلطان کوٹ میں ہوئی ، جس میں کثیر تلامذہ ، محبین اور معتقدین نے شرکت کی۔ سلطان کوٹ ہی میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ اللہ پاک ان کی قبر پر رحمتیں برسائے اور ہمیں ان کا فیضان عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مجلس رابطہ بالعلماء و المشائخ



[1] مہران سوانح نمبر ، ص 237

[2] مہران سوانح نمبر ، ص237

[3] مہران سوانح نمبر ، ص 238

[4] مہران سوانح نمبر ، ص 238

[5] شکارپور جی صحافتی تاریخ ، ص 92

[6] انوار علمائے اہلسنت سندھ ، ص 370

[7] جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال ، ص 266

[8] انوار علمائے اہلسنت سندھ ، ص367

[9] تذکرہ اکابر اہلسنت ، ص 188 ماخوذاً

[10] انوار علمائے اہلسنت سندھ ، ص 368

[11] جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال ، ص 365

[12] سہ ماہی مہران سوانح نمبر ، ص238

[13] خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس ، ص 35


Share