تاریخ کے اوراق
شہرِ بغداد ( دوسری اور آخری قسط )
*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022ء
شہرِ بغداد کی بعض تاریخی مساجد منصور نے محل کی تعمیر کے بعد جامع مسجد بنائی مگر وہ سمتِ قبلہ سے ذرا ہٹی ہوئی تھی ، خلیفہ ہارون رشید نے اسے گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا۔ [1] عہدِ خلافت میں یہی مسجد بغداد کی جامع مسجد تھی۔ ملکہ زبیدہ نے دریائے دجلہ کے کنارے شاہی محلات کے قریب ایک مسجد بنوائی اور ایک شاندار مسجد شہر کے شمال میں اپنے محلے قطعیہ میں تعمیر کروائی۔ جبکہ تیسری صدی ہجری میں شہرِ بغداد میں تین لاکھ مساجد کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔[2]
شہرِ بغداد کے مدارس ومہمان خانے جب باقاعدہ مدارس کا دور شروع ہوا تو بغداد ہی اس میدان میں سب سے آگے تھا۔ جہاں النظامیہ اور المستنصریہ جیسے مدرسے قائم ہوئے اور ان کا اثر تمام مدارس کے طریقِ درس اور طرزِ تعمیر پر پڑا۔ تیس کے قریب دارُ العلوم تھے ، جن میں سے ہر ایک کی اپنی اعلیٰ درجے کی عمارت تھی۔ انہیں چلانے اور طلبہ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے بہت سے اوقاف اور موھوبہ جائدادیں موجود تھیں۔ سب سے زیادہ مشہور دارُ العلوم یہ تھے : ( 1 ) نظامیہ ، جو459ہجری میں قائم ہوا ( 2 ) مدرسہ ابوحنیفہ ، جواسی سال قائم ہوا۔ یہ آج تک کلیۃ الشریعۃ کے نام سے موجود ہے ( 3 ) المستنصریۃ ، جو 631 ہجری میں قائم ہوا اور عرصہ دراز تک جاری رہا ( 4 ) البشیریۃ ، جو 653ہجری میں قائم ہوا۔ مُؤخّرُ الذکر دونوں مدارس میں چاروں مذاہب کی فقہ پڑھائی جاتی تھی۔ کچھ مزید مدارس بھی تھے ، مثلاً : ( 5 ) مدرسۃ الاصحاب اور ( 6 ) مدرسۃ العصمتیہ ( 7 ) ایک عظیمُ الشان و یادگار مدرسہ شیخ ابوسعید مخزومی رحمۃُ اللہ علیہ نے قائم فرمایا۔ آپ کے بعد اس مدرسہ کی باگ ڈور حضور شیخُ الاسلام و المسلمین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ نے سنبھالی ، آپ حدیث ، فقہ ، تفسیر وغیرہ 13 علوم کی تدریس فرماتے تھے ، حضور غوثِ اعظم سے اکتسابِ فیض کرنے والوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ مدرسہ میں توسیع کرنی پڑی۔ آپ سے فیض پانے والے عُلَما ، فقہا ، صوفیا اور شاگردوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔ 606ہجری میں بغداد کے ہر محلے میں ایک مہمان خانہ ( دار الضیافۃ ) تعمیر کیا گیا تاکہ رمضان شریف میں غریبوں کو کھانا کھلایا جائے۔[3]
شہرِ بغداد اور عُلما ومحدثین بغداد میں دو طرح کے مشائخ اور علما و محدثین ہیں ایک وہ جو باہر سے تشریف لائے، یہاں رہے پھر تشریف لے گئے یا اسی شہر میں وصال فرمایا اور دوسرے وہ جو یہیں پیدا ہوئے۔ان کی تعدادبے شمار ہے ، ہم یہاں بعض مشہورو معروف بزرگوں کا ذکر کرتے ہیں ۔
( 1 ) حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام ، آپ اللہ کے نبی ہیں ، حضرت یوسف علیہ السّلام کی اولاد سے ہیں ، سورۂ کہف میں اشارۃً آپ کا ذکرِ خیر ہے۔ آپ کا مزارِ عالیشان بغداد شریف میں ہے ، مشہور مجذوب بہلول دانا علیہ الرَّحمہ کا مزار بھی وہیں پاس میں ہے۔
( 2 ) امام موسیٰ کاظم اور امام ابو جعفر محمد تقی رحمۃُ اللہ علیہما ، فقہ و تصوف کے مجمعُ البحرین ، طریقت کے پیشوا اور معرفت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ان بزرگوں نے اہلِ بغداد کو خوب فیضاب فرمایا اور بغدادِ معلیٰ ہی میں وصال فرمایا۔
( 3 ) کروڑوں حنفیوں کے پیشوا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃُ اللہ علیہ ، آپ کوفہ میں پیدا ہوئے اور بغداد میں وصال فرمایا۔ مزار شریف اعظمیہ ، بغداد کے خیزران نامی قبرستان میں ہے۔
( 4 ) حرمتِ قراٰن کے پاسبان ، امام بخاری وامام مسلم کے استاد امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ ، بغداد میں پیدا ہوئے ، بہت سے اسلامی شہروں میں جاکر علم حاصل کیا اوروصال بغداد ہی میں ہوا ، وہیں مدفون ہیں۔
( 5 ) امام بخاری ، امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابن ماجہ ، امام ابوداؤد رحمۃُ اللہ علیہم ۔ عالَمِ اسلام کے ان عظیم محدثین نے تحصیلِ علم کی خاطربے شمار بار بغدادِ معلیٰ کا سفر کیا اور یہاں کے مشہور علمائے کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔امام ابوداؤد رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ” السنن “ یہیں لکھی۔
( 6 ) شیخ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ ، مقامِ کَرْخ بغداد میں پیدا ہوئے ، اما م علی رضا اور امامِ اعظم ابوحنیفہ سے اکتسابِ علم کیا۔ مزارِ اقدس بغدادِ معلیٰ میں ہے۔بقولِ اہلِ بغداد آپ کی قبر شریف حاجتیں پوری ہونے کے لئے آزمودہ ہے۔
( 7 ) سلسلہ قادریہ کےعظیم بزرگ اورگروہِ صوفیا کے سردار حضرت جنید بغدادی رحمۃُ اللہ علیہ کے آباء و اجداد کا اصل وطن نَہاوَنْد ہے مگر آپ کی پیدائش و پرورش عراق میں ہوئی ، یہیں بغداد میں وصال فرمایا۔مزارِ اقدس شونیزیہ بغداد میں ہے۔
( 8 ) حجۃُ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ ، آپ 484 ہجری میں بغداد کے مشہور مدرسہ نظامیہ کے شیخ الجامعہ ( وائس چانسلر ) بنائے گئے۔ چارسال تدریس وتصنیف کے بعد بغداد سے تشریف لے گئے۔
( 9 ) پیرانِ پیر ، قطبِ ربانی ، شیخ عبدُالقادر جیلانی حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہ علیہ ۔ آپ عراق کے جیلان نامی گاؤں میں پیدا ہوئے اور نوعمری میں ہی بغداد تشریف لے گئے اوراپنے وصال تک وہیں رہے ، آپ کا مزارِ پُرانوارمَرجع ِخلائق ہے۔
( 10 ) شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃُ اللہ علیہ ، آپ کی پیدائش ایرانی صوبہ زنجان کے شہر سہرورد میں ہوئی۔ جوانی میں بغداد تشریف لے آئے ، مدرسہ نظامیہ میں تعلیم پائی ، امام بیہقی ، خطیب بغدادی اورامام قشیری رحمۃُ اللہ علیہم سے احادیث سنیں اور شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ سے فیضاب ہوئے۔ مزار شریف بغداد میں ہے۔
( 11 ) مثنوی شریف کے مصنف مولاناجلالُ الدّین رومی رحمۃُ اللہ علیہ پیدا تو بلخ میں ہوئے مگر آپ کی علمی نشوونما بغداد کے مدرسہ مستنصریہ میں ہوئی۔
تاتاریوں کی بغداد پر یلغار 656ہجری میں چنگیز خان کے پوتے ” ہلاکوخان “ نے شہرِ بغداد پر ایک بڑی فوج کے ساتھ حملہ کیا ، اس وقت خاندانِ عباسیہ کا آخری خلیفہ مُعْتَصِم بِاللہ مسندِ خلافت پر مُتَمَکِّن تھا ، منگولوں کا حملہ اتنا سخت تھا کہ شاہی فوج اس کا مقابلہ نہ کرسکی ، حملہ آوروں نے بڑی تباہی مچائی ، لاکھوں لوگوں کو شہید کردیا ، مسجدیں ، مدرسے ، لائبریریاں تباہ وبرباد کردیں اور شاہی عمارتوں کو جلا ڈالا۔
شہرِبغداد اور امام احمد رضا خان اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اپنے بزرگوں اور ان سےمنسوب اشیا کا بہت ہی ادب کیا کرتے تھے ۔ حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہ علیہ کے شہر ” بغدادِ معلیٰ “ کا اس قدر ادب کرتے تھے کہ آپ کو چھ سال کی عمر میں ہی بغداد شریف کی سمت معلوم ہوگئی تھی پھر زندگی بھر اس شہر کی طرف پاؤں نہ پھیلائے۔ سمتِ قبلہ کااحترام تو آدابِ قبلہ میں شامل ہے مگر سمتِ مرشد کا ادب بارگاہِ عشق کاحصّہ ہے۔[4] آپ کی شاعری میں بھی شہرِ بغداد کا ذکرِ خیر ملتا ہے ، چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
حرم و طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نِگاہ
جَوت پڑتی ہے تِری نور ہے چھنتا تیرا
میری قسمت کی قَسَم کھائیں سگانِ بغداد
ہِند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا
ساقی سُنا دے شیشۂ بغداد کی ٹپک
مہکی ہے بُوئے گُل سے مدامِ ابُوالحسین[5]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃُ العلمیہ کراچی
[1] تاریخ بغداد ، 1 / 122ماخوذاً
[2] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 4 / 646 ، 648
[3] ابن بطوطۃ ، 1 / 105-الوافی بالوفیات ، 2 / 393- المنتظم ، 18 / 173-مراۃ الجنان ، 3 / 267-اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 4 / 651 ، 657 ، 659 ، 662
[4] تذکرہ امام احمد رضا ، ص 3 ماخوذاً
[5] حدائق بخشش ، ص 18 ، 21 ، 115
Comments